Maktaba Wahhabi

344 - 495
اس حدیث کا واضح مطلب یہ ہے کہ جو نکا ح سر پر ست کی مر ضی کے بغیر ہو اس کی شر عاً کو ئی حیثیت نہیں ہے، یعنی ایسا نکا ح سر ے سے ہو تا ہی نہیں ہے اس ضا بطہ کی خلا ف ورزی کر نے والے تمام عمر بد کا ر ی کرتے ہیں ۔اگر سر پر ست غلط جگہ پر اپنی بیٹی کی شا دی کر نا چا ہتا ہے تو حق ولایت خو د بخو د دوسرے قریبی رشتے دار کی طرف منتقل ہو جا تا ہے۔ اگر تمام سر پرست کسی غلط جگہ پر شا دی کے لیے اتفا ق کر لیں (اگرچہ ایسا بہت کم ہو تا ہے ) تو عدالتی چا رہ جو ئی کی جا سکتی ہے۔ اگر عدالت اس نتیجہ پر پہنچےکہ واقعی تمام سر پر ست نکا ح کے لیے کسی غلط کار کا انتخا ب کیے ہو ئے ہیں تو جج کی سر پر ستی میں عدا لتی نکا ح کیا جاسکتا ہے لیکن اگر با پ یا کو ئی دوسرا سر پر ست صحیح جگہ پر رشتہ کر نا چا ہتا ہے اور لڑکی وہا ں آما دہ نہیں یا غلط کا ر ہو نے کی وجہ سے کسی ایسی جگہ رشتہ کرنا چاہتی ہے جو خا ندان کے لیے با عث ننگ دعا رہے تو ان حا لا ت میں عدالتی نکا ح صحیح نہیں ہو گا ۔ سوال۔ٹیکسلا سے ڈا کٹر محمو د لکھتے ہیں کہ ایک امام مسجد پیسے کے لا لچ میں آکر ایک نکا ح شدہ لڑکی کا آگے نکا ح پڑھا دیتا ہے حا لا نکہ اسے بتا دیا گیا تھا کہ اس کا نکا ح پہلے ہو چکا ہے اور وہا ں سے طلا ق نہیں لی ہے، آپ کسی دوسر ے شخص سے اس کا نکا ح نہ پڑھیں۔ اب دریا فت طلب امر یہ ہے کہ اس طرح نکا ح پڑھا دینا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے ؟کیا ایسا کر نے سے امام کا اپنا نکا ح بر قرار رہتا ہے یا نہیں ؟ جواب۔بشرط صحت سوال واضح ہو کہ ایک شادی شدہ عورت کا نکا ح کسی دوسر ے سے نہیں ہو سکتا جب کہ اس کے خا و ند نے اسے طلا ق نہ دی ہو ۔ قرآن پا ک میں واضح طو ر پر یہ ہدا یت مو جو د ہے، ارشا د با ر ی تعا لیٰ ہے :" شو ہر والی عورتیں بھی تم پر حرا م ہیں ۔‘‘ (4/النسا ء :24) اس واضح ہدا یت کے با وجو د اگر کو ئی فرد دانستہ طو ر پر ایک شا دی شدہ عورت کا آگے نکا ح پڑھا دیتا ہے تو وہ شر یعت اسلا میہ کی حرمت کو پامال کر تا ہے اس طرح وہ شخص بھی مجرم ہے جو جا نتے بو جھتے ہو ئے ایسی عورت سے نکا ح کر تا ہے اگر نکا ح خواں نے نا دانستہ طور پر ایسا کیا ہے تو پھر اس نے انتہا ئی بےاحتیاطی کا ثبو ت دیا ہے، بہر حا ل یہ نکا ح نہیں ہو ا، اسلا می ضا بطے کے مطا بق ان میں فو راً تفریق کرا دی جا ئے ۔صورت مسئو لہ میں اس با ت کی وضاحت مو جو د ہے کہ نکا ح خو اں کو پہلے بتا دیا گیا تھا، اس کے با و جو د اس نے نکا ح پڑھا کر بڑی نا ز یبا حرکت کا ثبو ت دیا ہے جس پر اللہ کے حضو ر اس کا ضرور مؤا خذہ ہو گا لیکن اس کا یہ جر م اس کے نکا ح پر اثر اندا ز نہیں ہو گا۔ شریعت اسلا میہ کی روسے امام کسی ایسے شخص کو مقرر کر نا چا ہیے جو معا شرہ میں بہترین مقا م اور نیک شہرت کا حا مل ہو ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرا می ہے :" کہ اپنے میں سے بہتر افراد کو امامت کے لیے منتخب کرو۔ (بیہقی :3/90) لہذا اس قسم کےا مام کو تو بہ کی تلقین کر نی چا ہیے اگر تو بہ کر لے اور وہ خود معقو ل اور شر یف ہو تو اس سے در گز ر کر تے ہو ئے اسے امامت پر بحال رکھا جائے لیکن اگر وہ اپنے جر م پر اصرار کر تا ہے اور اللہ کے حضو ر اپنی تو بہ کا نذرانہ پیش نہیں کرتا تو ایسے شخص کو امامت سے فو راً معزو ل کر دینا چا ہیے تا کہ منصب امامت کی تو ہین نہ ہو ۔(واللہ اعلم ) سوال۔چھا نگا ما نگا سے عبد الجبا ر لکھتے ہیں کہ میرا ایک لڑکا جو شا دی شدہ ہے اور صا حب اولا د ہے ،اس نے ایک لڑکی کو اغوا کر کے اس کے سا تھ نکا ح کر لیا ہے ،نکا ح کے وقت لڑکی کی طرف سے کو ئی حقیقی ولی مو جو د نہ تھا قرآن و حدیث کی رو سے اس
Flag Counter