Maktaba Wahhabi

341 - 495
وقت کو ئی علم نہ تھا، ایسے حا لا ت میں نکا ح کے متعلق کیا حکم ہے ؟ جوا ب۔ بشر ط صحت سوال واضح ہو کہ صورت مسئو لہ میں جب عورت کا نکا ح ہو ا ہے تو وہ کم ازکم چھ ماہ کی حا ملہ تھی اور یہ نا ممکن ہے کہ چھ ما ہ کے حمل کا کسی کو پتہ نہ چل سکے ،زید کو اگر نکا ح کے وقت اس کا علم نہ تھا اس کے عزیز و اقا رب اور خوا تین کو یقیناً اس کا علم ہو گا بہر حا ل یہ مسئلہ ایک ایسی عورت سے متعلق ہے جو بوقت نکاح حا ملہ تھی اس کے متعلق متفقہ فیصلہ ہے کہ اس قسم کا نکا ح سر ے سے ہو تا ہی نہیں بلکہ با طل اور بے بنیا د ہے ،البتہ خا و ند نے چونکہ اس سے وظیفہ زو جیت ادا کیا ہے ،اس لیے حق مہر کی ادائیگی اس کے ذمے ہے ،بیوی اور خا وند کے در میا ن فو راً تفر یق کرا دی جا ئے، اب انہیں بیوی اور خا و ند کی حیثیت سے زند گی بسر کر نا نا جا ئز اور حرا م ہے، حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کا مسئلہ دریافت کیا کہ میں نے (بظا ہر ) ایک کنوا ری سے شا دی کی جب میں اس کے پا س گیا تو معلو م ہو اکہ وہ تو حا ملہ ہے، اب میر ے لیے کیا حکم ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :" کہ اس کی شر مگا ہ کو تو نے اپنے لیے حلا ل سمجھا اس بنا پر حق مہر دینا ہو گا ۔(ابو داؤد :کتا ب النکا ح ) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے در میا ن فوراً تفریق کر ادی ۔(حو الہ مذکو رہ )حا فظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے چار مسا ئل کا استنبا ط کیا ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ زنا سے حا ملہ کا بحالت حمل نکا ح حرا م ہے ۔ (تہذیب السنن :2/61) زادالمعا د میں بھی اس پر سیر حا صل بحث کی ہے فر ما تے ہیں کہ زنا سے حا ملہ عورت کا نکا ح با طل ہے حدیث سے بھی یہ حکم ثا بت ہو تا ہے ۔ (زادالمعاد:4/7) البتہ زنا سے پیدا ہو نے والا بچہ اگر وہ رکھنا چاہے تو خدمت گزا ری کے طو ر پر اسے رکھا جا سکتا ہے، اس صورت میں اس کے جملہ مصارف اس کے ذمہ ہو ں گے جیسا کہ کہ حدیث میں اس کی صرا حت مو جو د ہے۔ واضح رہے کہ زنا سے حا ملہ عورت کے نکا ح کا باطل ہو نا حدیث سے ثابت ہے قطع نظر کہ نکا ح کے وقت خا و ند کو اس کا علم تھا یا وہ اس سے بے خبر تھا، اس مو قع پر وضا حت کر نا بھی ضروری ہے، یہ جر م دوسر ے لو گو ں کے نکاح پر اثر اندا ز نہیں ہو گا جو بوقت نکا ح مجلس میں مو جو د تھے ۔(واللہ اعلم با لصوا ب ) سوال۔ جہا نیا ں منڈی سے محمد جما ل لکھتے ہیں کہ مند رجہ ذیل سوالات کا جوا ب مطلو ب ہے ؟ (الف ) دولہا کے گلے میں رو پو ں اور پھو لو ں کا ہا ر ڈا لنا شر عاً کیسا ہے ؟ اگر دولہا اسے پسند نہ کر ے لیکن دوست واحباب زبردستی ڈا ل دیں تو اس میں کیا حرج ہے ؟ (ب) کیا ولیمہ کے لیے بیو ی سے مقا ر بت شر ط ہے ؟ بعض علماء ءفر ما تے ہیں کہ یہ ضروری نہیں ہے، وضا حت فر ما ئیں ۔ جوا ب ۔دین اسلا م ہمیں سا دگی، اعتدال پسند ی کی تعلم دیتا ہے ایسے اخراجات جو انسا ن کی حقیقی ضروریا ت کے علا وہ اٹھتے ہو ں ،نیز اپنی دولت کو مفید کامو ں کے بجا ئے غلط کا مو ں پر صرف کر نا کفر ان نعمت ہے جس کے متعلق قیا مت کے دن با ز پر س ہو گی ۔قرآن کر یم نے اس طرح اسراف و تبذ یر کرنے والو ں کو شیطان کے بھا ئی قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ "فضو ل خرچی نہ کرو کیو ں کہ فضو ل خرچی کر نے والے شیطا ن کے بھا ئی ہیں۔ (17/بنی اسرائیل:27) دولہا کے گلے میں روپو ں اور پھو لو ں کے ہا ر پہنانا بھی اسی قسم سے ہے اس کے علا وہ فخر و مبا ہا ت اور نما ئش وریا کا ری بھی
Flag Counter