ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پسند نہیں فر ما یا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریا کا ری کو شر ک خفی اور شرک اصغر قرار دیا ہے، اس بنا پر عقل مند انسا ن ایسے خو شی کے مو قع پر بھی اعتدال کے دا من کو ہا تھ سے نہیں چھو ڑتا، خو د رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم اس قسم کے نمائشی کا مو ں سے نفرت کر تے تھے دولہا کو چا ہیے کہ وہ اپنے دوست و احباب کو ایسے کا مو ں سے اجتنا ب کی تلقین کر ے اگر کچھ جنو نی اور جذبا تی دوست اس کے گلے میں ہا ر ڈال دیتے ہیں تو اسے چا ہیے کہ انہیں اتار دے کیو ں کہ ان کو اتار دینا تو اس کے اختیا ر میں ہے ویسے بھی نو ٹو ں کے ہا ر خرید نا شر عی طور پر جا ئز نہیں ہیں ۔لہذا شنا خت وا متیا ز کا بہا نہ بنا کر احکا م شر یعت کا خو ن نہیں کر نا چا ہیے ،اللہ تعا لیٰ نے اگر دولت دی ہے تو اسے غلط مصرف پر استعمال نہیں کر نا چا ہیے ۔ حا فظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ولیمہ کے وقت کے متعلق سلف میں اختلاف پا یا جا تا ہے کہ مقا ربت سے پہلے یا بعد ما لکی حضرات مقا ربت کے بعد ولیمہ کر نا مستحب قرار دیتے ہیں ۔(فتح البا ری :9/241) ہما را رجحا ن بھی یہی ہے لیکن اسے ولیمہ کے لیے شر ط قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے یہی معلو م ہو تا ہے کہ ولیمہ مقاربت کے بعد کر نا چا ہیے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیا ن کر تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکا ح کے بعد مقا ربت کر چکے تو دعوت ولیمہ کے لیے لو گو ں کو اپنے گھر بلا یا ۔(صحیح بخا ری :کتا ب النکا ح، با ب الو لیمہ حق ) حضرت امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر با یں الفاظ عنوا ن قائم کیا ہے :" با ب وقت الولیمہ " (بیہقی ؛7 /260) اگر رخصتی کے بعد خا و ند بیو ی کے جمع ہو نے سے پہلے بلا ضرورت و مجبوری ولیمہ کر دیا جا ئے تو یہ غیر مسنو ن طو ر پر ولیمہ کی ذمہ داری سے عہد ہ بر آہو نا ہے۔ (واللہ اعلم ) سوال۔ بہاو لپو ر سے عبدالغفو ر دریا فت کر تے ہیں کہ ایک عورت کا نکاح کسی شخص سے ہو ا جو اسے نا پسند کر تی ہے ابھی رخصتی عمل میں نہیں آئی اور نکا ح کا با قا عدہ اندراج بھی نہیں ہو ا، اب عورت وہا ں آباد نہیں ہو نا چا ہتی، قرآن و حدیث کی رو شنی میں اس کا حل مطلو ب ہے ؟ جواب۔ واضح رہے کہ نکا ح کے وقت لڑکی کی رضا مند ی ضروری ہے اگر عین نکا ح کے وقت لڑکی کی طرف سے نا پسند ید گی کا اظہا ر ہو ا تھا اور اس نے ایجاب سے انکا ر کر دیا تھا تو اس صورت میں سر ے سے نکاح منعقد نہیں ہو ا ،اس قسم کے جبری نکا ح کی شرعاً کو ئی حیثیت نہیں ہے ،اس کے بر عکس اگر نکاح کے وقت اظہا ر نا پسند ید گی نہیں ہو ا تو یہ نکاح صحیح ہے، اب اگر وہ اپنے خا و ند کے گھر آباد نہیں ہو نا چا ہتی تو عدالت کی طرف رجو ع کر ے اور درخواست دے کہ میں اپنے خا وند کے گھر آباد نہیں ہو نا چا ہتی، عدا لت اس امر کا پتہ کر ے گی کہ نفرت کی وجوہات کیاہیں ؟ اس کے بعد تنسیخ نکا ح کی ڈگری جا ری کر ے گی، صرف فتو ی فسخ نکا ح کے لیے کا فی نہیں ہو گا یہ عدا لت کا کا م ہے ،چونکہ ابھی تک رخصتی عمل میں نہیں آئی ،اس کے لیے عدت گزارنے کی بھی پا بندی نہیں ہے، عدالت کی طرف سے تنسیخ نکا ح کی ڈگر ی جا ری ہو نے کے بعد فوراً نکا ح ثا نی کیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ نکا ح صرف ایجاب و قبو ل کا نا م ہے، اس کے لیے با قا عدہ اندراج شر ط نہیں ہے اگرچہ معا شرتی برائیو ں کی رو ک تھا م کے لیے رجسٹریشن ضروری ہے لیکن انعقا د نکاح کے لیے شرط نہیں ہے ۔ |