متعلق بھی حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہما کا فتوی یہ ہے کہ’’ اس شخص نے بیک وقت دو حر متو ں کو پا ما ل ضرور کیا ہے لیکن اس کی بیو ی اس پر حرا م نہیں ہو گی ۔‘‘ (بیہقی ۔7/68) اس کی سند کے متعلق علا مہ البا نی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ شیخین کی شر ط کے مطابق ہے۔ (ارواء الغلیل:6/288) حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہما سے اس کے بر عکس بھی فتو ی منقو ل ہے جس کے متعلق امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں کہ ابن عبا س رضی اللہ عنہما سے بیا ن کر نے والے راوی ابو نصر کا سما ع حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہما سے ثا بت نہیں ہے ۔ (صحیح بخا ری :کتا ب النکا ح ) اس مسئلہ کے متعلق ایک روایت بھی بیا ن کی جا تی ہے کہ جس نے کسی عورت کی شر مگا ہ کو دیکھ لیا اس عورت کی ما ں اور بیٹی دیکھنے والے پر حرام ہو جا تی ہے۔ (تفہیم القرآن :1/337) لیکن حا فظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس رو ایت پر تبصرہ کر تے ہو ئے لکھتے ہیں کہ اس کی سند میں ایک راوی مجہو ل ہے جس کی بنا پر یہ روایت قا بل قبو ل نہیں ہے ۔(فتح البا ر ی :9/156) امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ اس کی سند میں انقطا ع جہا لت اور ضعف ہے ۔(بیہقی :7/170) قرآن کر یم نے جس حر مت مصا ہر ت کا ذکر کیا ہے اس سے وہ رشتہ مرا د ہے جو نکا ح صحیح کے بعد عمل میں آتا ہے محض ز نا سے مصا ہر ت (سسرا لی رشتہ ) ثا بت کرنا سینہ زوری ہے کیو ں کہ اس قسم کی بد کا ری سے حق مہر، عدت اور ورا ثت وغیرہ کا اجراء اگر نہیں ہو تا تو اس سے رشتہ مصا ہر ت کیسے ثابت ہو سکتا ہے جو حرمت کا با عث ہو، بلا شبہ زنا بہت بڑا فو جد اری جر م ہے لیکن حرام جر م کسی حلا ل رشتہ پر اثر انداز نہیں ہو تا ،چنانچہ حضرت سعید بن مسیب اور حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے ایک ایسے آدمی کے متعلق پو چھا گیا جس نے کسی عورت سے بدکاری کی تھی ،کیا وہ اس عورت کی ما ں سے نکا ح کر سکتا ہے تو انہو ں نے جواب دیا کہ حرا م جر م کسی حلال کو حرا م نہیں کر سکتا ۔(فتح البا ر ی :9/157) اسی طرح امام زہر ی رحمۃ اللہ علیہ سے پو چھا گیا کہ اگر کو ئی آدمی کسی عورت سے بد کا ری کر تا ہے تو کیا اس عورت کی لڑکی سے نکا ح ہو سکتا ہے۔تو انہوں نے بعض اہل علم کے حو الہ سے فر ما یا کہ اللہ تعا لیٰ کسی حرام جر م کی بنا پر حلال کو خرا ب نہیں کر تا ۔(بیہقی :7/169) امام بخا ر ی رحمۃ اللہ علیہ ان تینو ں بزرگو ں کے متعلق فر ما تے ہیں کہ انہو ں نے ( بد کا ر ی کے بعد ) عورت کی ما ں سے اور بیٹی سے نکا ح کو جا ئز قرار دیا ہے۔ (صحیح بخا ری : کتا ب النکا ح ) قرآن کر یم کے مطا لعہ سے بھی یہی معلو م ہو تا ہے کہ اس قسم کے اندیشہ ہا ئے دو ر درازبے کا ر ہیں کیو ں کہ اللہ تعا لیٰ نے نسبی سسرا لی اور رضا عی محر ما ت بیان کر نے کے بعد فر ما یا ہے کہ ان کے علا وہ تمام رشتے تمہا رے لیے حلا ل ہیں ۔جب قر آن کر یم نے اس زنا کو مصاہرت میں شا مل نہیں کیا ہے تو ہمیں اس تکلف میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے، لہذا صورت مسئو لہ میں آدمی کا نکا ح صحیح ہے ،البتہ اسے اللہ تعالیٰ سے اپنے جر م شنیع کی معا فی ما نگنا اور صدق دل سے تو بہ و استغفا ر کر نا انتہائی ضروری ہے ۔(واللہ اعلم ) سوال۔لا ہو ر سے محمد اسحا ق لکھتے ہیں کہ زید کا نکا ح کسی عورت سے ہو ا ،تین ماہ بعد اس نے ایک بچہ جنم دیا جبکہ زید کو نکا ح کے |