جنت کے حرا م ہو نے کی و عید سنا ئی ہے جو اپنے گھر میں برا ئی دیکھ کر اسے ٹھنڈے پیٹ برداشت کر لیتا ہے، لڑکیو ں کے متعلق تو خا ص ہدا یت ہے کہ جونہی منا سب رشتہ ملے ان کا نکا ح کر نے میں دیر نہ کی جا ئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ وصیت فر ما ئی تھی کہ تین کامو ں میں دیر نہ کر نا ،ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب لڑکی کے لیے منا سب رشتہ مل جا ئے تو اس کا نکا ح کرنے میں لیت ولعل سے کا م نہیں لینا چا ہیے۔ حدیث میں یہ بھی ہے کہ اخلا قی اور دینی طو ر پر منا سب رشتہ ملنے کے با و جو د اگر کو ئی "بلند معیا ر " کی تلا ش میں دیر کر تا ہے تو وہا ں ضرور فتنہ و فسا د رو نما ہو گا، صورت مسئولہ میں ہم اس حقیقت کا نما یا ں طو ر پر مشا ہدہ کر تے ہیں کہ والدین کو اولا د کی اس حرکت شنیعہ کا علم تھا اس کے با و جو د خا مو ش تماشا ئی کی حیثیت اختیا ر کیے ہو ئے ہیں۔ آخر اس بد کا ری پر نو بت یکبا ر نہیں پہنچ جاتی، بلکہ اس سے پہلے کچھ مقد ما ت اور ابتدا ئی محر کا ت ہو تے ہیں جو بد کاری کے راستہ کی طرف لے جا تے ہیں۔ اس مقا م پر ہما را سوال یہ ہے کہ بد کار ی کے مقد ما ت ،محر کا ت اور اسباب کے سد باب کے لیے والدین نے کیا کردار سرانجا م دیا ہے۔ قرآن پا ک نے نہ صرف زنا سے رو کا ہے بلکہ اس کے ابتدائی محر کا ت کا بھی راستہ بند کیا ہے اور ان تمام شر منا ک افعا ل سے منع کیا ہے جو بد کا ری کا سبب بن سکتے ہیں ۔ان ابتدا ئی گزارشا ت کے بعد ہم صورت مسئو لہ کا جا ئز ہ لیتے ہیں کہ صفا ئی کے بعد والدین کی رضا مندی سے نکا ح ہو ا ہے وہ شر عاً درست اور جائز ہے۔ اب انہیں چا ہیے کہ اللہ کے حضو ر نہا یت عا جزی اور ندامت کے جذبا ت سے تو بہ کریں اور آیندہ اس قسم کی نا ز یبا حرکا ت سے اجتنا ب کر نے کا عز م کر یں و گر نہ قرآن مجید کی روسے یہ بھی صحیح ہے کہ ’’ بد کا ر مرد نا ہنجا ر عورت سے ہی نکا ح کر تا ہے ۔‘‘(24/النو ر :3) پھر اس سلسلہ میں جن مشکلا ت و مصائب کا سامنا کر نا پڑے گا وہ بہت سنگین ہیں، اس لیے بہتر ہے کہ تو بہ کر کے اپنی آیندہ زند گی کو پا کیزہ کریں اور خو ش اسلوبی سے بقیہ ایا م گزارنے کا عز م رکھیں ،تو بہ کر نے سے سا بقہ گناہ نہ صرف معا ف ہو جا تے ہیں بلکہ اگر اخلا ص ہو تو یہ پہلے گنا ہ نیکیو ں میں بدل جا تے ہیں ،جیسا کہ قرآن مجید میں اس کی وضاحت مو جو د ہے۔ (25/الفرقا ن : 70) سوال۔ نو ر پو ر تھل سے پرو فیسر نو ا ب دین کلیر الکھتے ہیں کہ ایک مر د کے کسی عورت کے ساتھ نا جا ئز تعلقا ت تھے اس نے اس فعل بد سے تو بہ کر نے کے بعد اس عورت کی لڑکی سے نکا ح کر لیا قرآن و حد یث کی رو سے آیا یہ نکا ح صحیح ہے ؟ جواب ۔صورت مسئو لہ کے متعلق علماء ئے امت کا ختلا ف ہے اکثر اہل علم کی را ئے کے مطا بق وہ صنفی تعلقات حر مت کا با عث ہو تے ہیں جو شر عی نکا ح کے بعد قا ئم کئے جا ئیں گے، جبکہ کچھ علماء ء کا خیا ل ہے کہ شرعی، غیر شر عی سے قطع نظر مطلق طو ر پر کسی عورت سے صنفی تعلقات قا ئم کر نا اس عورت کی ماں اور بیٹی سے نکا ح کر نے میں رکا و ٹ کا باعث ہیں۔ احنا ف نے مؤخر الذ کر مو قف کو اختیا ر کیا ہے، لیکن جمہو ر علماء ءنے ان سے اتفا ق نہیں کیا بلکہ ان کے ہا ں نا جا ئز تعلقا ت کسی قسم کی حر مت کا با عث نہیں بنتے، مثلاً دو بہنو ں سے بیک وقت نکا ح کر نا جائز ہے کیا کسی عورت سے نکا ح کر نے کے بعد اس کی بہن سے بد کا ری کرنا رشتہ ازدواج کے انقطا ع کا با عث ہو سکتا ہے، ہر گز نہیں، چنانچہ حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہما فر ما تے ہیں کہ’’ جب کو ئی اپنی سا لی سے زنا کر تا ہے تو اس کی بیو ی اس پر حرا م نہیں ہو گی ۔‘‘(صحیح بخا ری تعلیقاً) اسی طرح کو ئی آدمی اپنی بیو ی کی والد ہ سے نا جا ئز تعلقا ت استوار کر لیتا ہے تو اس کی بیو ی اس پر حرام نہیں ہو گی، اس کے |