وسنت میں اس کے کر نے کا ثبوت پا یا جا ئے منگنی کے موا قع پر انگو ٹھی وغیرہ کے تحا ئف کا تبا دلہ کر نا جا ئز ہے لیکن اس میں درج ذیل تفصیل کو مد نظر رکھنا ہو گا ۔ (1)مرد کے لیے سو نے کاا ستعما ل شرعاً نا جا ئز اور حرا م ہے خوا ہ انگوٹھی کی شکل میں ہے خواہ کسی دوسری صورت میں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کو اپنی امت کے مردو ں کے لیے حرام قرار دیا ہے ،حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے ہا تھ میں سو نے کی انگوٹھی دیکھی تو فر ما یا :" کیا تم میں سے کو ئی آدمی آگ کی چنگا ری کا ارادہ کرتا ہے پھر اسے اپنے ہا تھ میں رکھ لیتا ہے ۔‘‘ ( ابو داؤد :کتا ب اللبا س ) اس بنا پر مر دو ں کے لیے سو نے کی انگو ٹھی پہننا جا ئز نہیں ہے، لہذا اس قسم کے تحفہ سے اجتنا ب کیا جا ئے، البتہ سو نے کے علا و ہ چا ندی یا دوسری معد نی اشیا ء کی انگو ٹھی خو اہ وہ کتنی ہی قیمتی کیو ں نہ ہو اس کا پہننا مر د کے لیے جا ئز ہے ۔ (2)اس قسم کی انگو ٹھی کے پہننے اور پہنانے میں یہ عقیدہ کا ر فر ما ہو تا ہے کہ یہ عمل آیندہ ازدوا جی زند گی میں الفت و محبت کو مستحکم کر نے کا باعث ہے، اگر یہ اعتقا د رکھا جا ئے تو ایسا کر نا شرک ہے جو ایک مسلمان کی شا ن کے شا یا ن نہیں ہے۔ اس عقیدہ کے ساتھ کسی کو بھی انگو ٹھی پہننے کی اجا ز ت نہیں ہے۔ (3) اگر کفا ر و مشر کین کے ہا ں اس قسم کے تحا ئف بطو ر امتیا ز و علامت استعما ل ہو ں تب بھی ان کا استعما ل صحیح نہیں ہے۔ حدیث میں ہے :" کہ جو کسی کی نقا لی کر تے ہو ئے عمل کر تا ہے قیا مت کے دن وہ انہیں میں اٹھا یا جا ئے گا ۔‘‘(سنن ابی داؤد ) (4)اس طرح یہ بھی جا ئز نہیں ہے کہ اس انگو ٹھی کو ہو نے والا خاوند از خو د اپنی منگیتر کو پہنا ئے کیو ں کہ وہ ابھی اس کی بیو ی نہیں ہے ،بلکہ اس کے لیے وہ ایک اجنبی عو رت ہے، بیو ی تو عقد نکا ح کے بعد بنتی ہے ۔ مذکو رہ با لا شرا ئط اور گزا رشا ت کو مد نظر رکھتے ہو ئے خاوند کی طرف سے اپنی منگیتر کو انگو ٹھی بطو ر تحفہ پیش کر نے میں کو ئی حرج نہیں ہے، لڑکی کی طرف سے انگو ٹھی وغیرہ بطو ر دی جا سکتی ہے لیکن اگر وہ سو نے کی ہے تو پہننے کی اجا ز ت نہیں بلکہ اسے دوسر ے مصرف میں استعمال کر لیا جا ئے اور اگر سو نے کے علا و ہ کسی اور دھا ت کی ہے تو اس کے پہننے میں کو ئی حرج نہیں ہے ۔(واللہ اعلم با لصواب) سوال۔ذوالفقا ر بذ ریعہ ای میل سوال کر تے ہیں کہ ایک لڑکے نے کسی لڑکی سے نا جا ئز تعلقا ت استوا ر کئے جس کے نتیجہ میں نا جا ئز حمل قرار پا گیا، ان کے والدین کو اس حرکت کا علم تھا ، اب حمل کو ضا ئع کر کے لڑکے اور لڑکی کے اصرار پر ان کا نکا ح کر دیا گیا ہے تا کہ عدا لت کی گر فت میں نہ آ سکیں، واضح رہے کہ نکا ح دو نو ں کے والدین کی اجا زت اور رضا مند ی سے ہو ا ہے کیا ایسا نکا ح شرعاً جا ئز ہے ؟ جوا ب ۔قرآن مجید میں جہا ں والدین کے حقوق بیا ن کیے گئے ہیں وہاں ان کے فرا ئض وواجبا ت کی بھی نشا ندہی کی گئی ہے انہیں اس با ت کا پابند کیا گیا ہے کہ اپنی اولا د کی صحیح تعلیم و تربیت کا بند و بست کر یں اپنا گھر یلو ما حو ل صا ف و ستھرا اور پا کیزہ رکھیں ،معا شرتی برا ئیو ں کے سلسلہ میں اپنی اولا د کی کڑی نگرانی کر یں ۔رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے "دیو ث " پر لعنت فر ما ئی ہے اور اس پر |