گستا خ ہو نا کو ئی ایسا سبب نہیں ہے جسے بنیا د بنا کر اسے اپنی جائیداد سے محروم کیا جا سکے ۔قرآن کر یم نے : ﴿ يُوصِيكُمُ اللّٰهُ فِي أَوْلَادِكُمْ﴾ فر ما کر ہر قسم کی اولا د کو ضا بطہ میرا ث میں شا مل کیاہے، البتہ جو اولا د نص قطعی سے اس ضا بطہ سے متصادم ہو گی اسے خا ر ج قرار دیا جا ئے گا،جیسا کہ ہم نے پہلے اشا رہ کیا ہے۔ ضا بطہ میرا ث بیا ن کر نے کے لیے اللہ تعا لیٰ فر ما تا ہے :"(ضا بطہ میرا ث پر عمل کیا جا ئے ) جبکہ وصیت جو کر دی گئی ہے اسے پو را کیا جا ئے اور قرض جو میت کے ذمہ ہے اس کی بھی ادا ئیگی کر دی جا ئے بشر طیکہ وہ ضررر ساں نہ ہو ۔‘‘ (4/النسا ء 12) اس مقا م پر مفسر ین نے لکھا ہے کہ وصیت میں ضرر رسا نی یہ ہے کہ ایسے طو ر پر وصیت کی جا ئے جس سے مستحق رشتہ داروں کے حقو ق تلف ہو تے ہوں یا کو ئی ایسی چا ل چلے جس سے مقصود اصل حقداروں کو محرو م کر نا ہو۔ حدیث میں ہے : کہ کسی کو بلاوجہ اپنی جائیداد سے محروم کرنا اس قدر سنگین جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے جنت میں ملنے والے حصہ سے محروم کردیں گے۔‘‘ (بیہقی ) اس بنا پر نا فر ما نی اور گستا خی جیسے انتہا ئی سنگین جر م کے باوجو د اولا د کو اپنی جا ئیداد سے محروم نہیں کیا جا سکتا، ایک حدیث میں ہے کہ ایک صحا بی نے اپنے کسی بچے کو ایک غلا م عطیہ کے طو ر پر دیا ،اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گو ا ہ بنا نا چا ہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا کہ :تو نے سب بچو ں کو ایک ایک غلا م دیا ہے۔ "صحا بی نے عرض کیا کہ نہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :" اللہ سے ڈرو اور اپنی اولا د کے معا ملہ میں عدل و انصا ف سے کا م لو ۔"(صحیح بخا ری :الھبۃ، 2587) بعض روایا ت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :" اپنی اولا د کے درمیان مسا و ات کیا کرو ۔"(بیہقی :کتا ب الحبا ت ) اگر چہ بعض علماء ء نے یہ گنجا ئش نکا لی ہے کہ با پ ،اولا د کے مخصوص حالات کے پیش نظر تقسیم میں تفا وت کر سکتا ہے، مثلاً ایک لڑ کا معذور، اپاہج یا بیما ر ہے یا وہ طلب علم میں مصرو ف ہے، لیکن انہو ں نے ایسے حالات میں بھی دوسر ے بھا ئیوں کی رضا مندی کو ضروری قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :" کہ با پ کو ئی ایسا اقدام نہ کر ے جو بھائیوں کے در میا ن دشمنی اور عداوت کا با عث ہو ا ور وہ اس کے کسی اقدام سے اس کی نا فر ما نی کا با عث بنیں۔ صورت مسئولہ میں بھی حالات کچھ اس قسم کے ہیں کہ خرا بی کی اصل وجہ یہی ہے کہ والد بڑے لڑکے کو محرو م کر نا چا ہتا ہے، اگر اس نے بڑے لڑکے کو کلیۃ محروم کر دیا تو اس سے مز ید بگا ڑ ہو گا ،ممکن ہے کہ یہ بگا ڑ چھو ٹے بیٹے اور خو د با پ کے لیے زند گی اور مو ت کا مسئلہ بن جا ئے ،حا لا ت کا تقاضا یہی ہے کہ باپ فر ما نبردار اور نا فر ما ن کی تمیز کیے بغیر اپنی اولا د میں مسا وا ت قائم رکھے ،شا ید ایسا کر نے سے نفرت و کد ورت کی آگ بھسم ہو جا ئے اور باپ کی طرف سے عد ل و انصاف پر مبنی فراخدلی آپس میں د لو ں کو ملا دینے کا با عث ہو، ممکن ہے کہ اس انصا ف پسندی کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کو ئی اتفاق کی صورت پیدا کر دے ۔ سوال کا دوسرا حصہ نا فر ما ن بیوی کو طلا ق دینے سے متعلق ہے، ہما رے نز دیک ایسے معا ملا ت میں جلد با زی سے کا م نہیں لینا چا ہیے۔ طلا ق دینا اگرچہ مبا ح ہے لیکن اللہ تعا لیٰ کے ہا ں ایک نا پسند یدہ عمل بھی ہے۔ اگر حا لا ت ایسے ہو ں کہ نبا ہ کی کو ئی صورت نہ ہو تو اللہ تعالیٰ نے خا و ند کو اختیا ر دیا ہے کہ وہ اپنی نافر ما ن بیوی کو طلا ق دے کر اپنی زو جیت سے الگ کر دے تا کہ اسے ذہنی کو فت سے نجا ت مل جا ئے، عین ممکن ہے کہ بیو ی اس لیے خدمت سے راہ فرار اختیا ر کر چکی ہو کہ وہ او لا د کے در میا ن مسا وات اور برابری |