دیکھنا چا ہتی ہو لیکن خا و ند گستا خ اور نا فر ما ن اولا د کو محروم کر دینے پر تلا ہو ا ہو، امید ہے کہ اولا د کے درمیان برابری کی تقسیم کر نے پر بیو ی بھی فر ما نبردار اور خدمت گزار بن جا ئے، بہر حا ل ہمیں اولا د کے معا ملہ میں اپنے رویے پر نظر ثا نی کر نا ہو گی اور اس سلسلہ میں روا رکھی جا نے والی زیا دتی اور نا ہمواری کو ختم کر نا ہو گا ۔(واللہ اعلم با لصواب ) سوال۔ڈیرہ غا ز ی خا ں سے محمد صدیق لکھتے ہیں کہ میر ے مندرجہ ذیل چا ر سوالا ت ہیں برا ہ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں جوا ب دیا جا ئے ۔ 1۔میر ی اولا د تین لڑکو ں اور تین لڑکیو ں پر مشتمل ہے، میر ی زرعی جا ئیداد 40ایکڑ ہے جسے میرا ایک بیٹا کا شت کر تا ہے جس کی محنت اور کا ر کردگی سے ہمارا سا را کنبہ مستفید ہو رہا ہے، میں نے اپنی بیوی اور اولا د کی تحریری رضا مندی سے اس کا شت کا ر بیٹے کے نا م حق الخد مت کے طو ر پر اپنی اراضی سے تین ایکڑ لگوا دئیے ہیں ،با قی زمین مشتر کہ ہے کیا ایسا کر نا شر عاً درست ہے ؟ 2۔میرا بیٹا شا دی کے بعد گھر سے الگ ہو گیا، اس نے الگ ہو نے کے بعد اپنی کما ئی سے کچھ جا ئیداد خریدی ہے، با قی دو نو ں بیٹو ں نے بھی جو میرے سا تھ ہیں، اپنی کما ئی سے اپنے نا م گا ؤں میں زرعی اراضی خریدی ہے، بڑا بیٹا ہمیں اپنی کما ئی سے کچھ نہیں دیتا بلکہ بے اد ب گستا خ ہے اور وہ دو نو ں بیٹو ں کی خرید کر دہ اراضی سے حصہ ما نگتا ہے، کیا وہ اس قسم کا مطا لبہ کر نے میں حق بجا نب ہے ۔ 3۔میر ی زرعی اراضی کی ہر قسم کی پیداو ار سے بڑ ے لڑکے کو ہر سا ل اس کا حصہ دیا جا تا ہے لیکن اس کا مطا لبہ ہے کہ جا ئیداد کو تقسیم کر کے اس کا حصہ دیا جا ئے، جب کہ میر ے ذمے ایک لڑکے کی شاد ی اور بہت سے گھریلو کا م ہیں ،بڑا لڑکا ویسے بھی ہما رے گھر آنے میں عا ر محسو س کر تا ہے، کیا زند گی میں ایسے نا فر ما ن لڑکے کو اس کا حصہ دینا درست ہے یا وہ میر ے مرنے کے بعد اپنا حصہ وصو ل کر ے گا ؟ جو اب۔ ترتیب وار جو اب حسب ذیل ہیں ۔ آدمی جب تک زندہ ہے اسے شر یعت کے دائرہ میں رہتے ہو ئے اپنے ما ل و جا ئیداد میں تصرف کر نے کا پو را پورا حق ہے لیکن اس تصرف میں اولا د کے درمیا ن برا بری اور مسا وا ت ضروری ہے، صورت مسئولہ میں با پ نے جو اپنے کاشت کا ر بیٹے کو تین ایکڑ دئیے ہیں یہ بطو ر حق الخد مت عطیہ کی شکل ہے ، چو نکہ تمام ورثا ء نے اپنی رضا مند ی سے بلا جبر وا کرا ہ اس تصرف کو قبول کیا ہے اور اسے بر قرار رکھتے ہو ئے اپنے دستخط ثبت کیے ہیں اس بنا پر شر عاً کو ئی قباحت نہیں اور یہ جا ئز ہے، البتہ کا شت کا ر بیٹے کو یہ عطیہ ملنے کے بعد با قی مشترکہ زمین سے بھی بطو ر وراثت حصہ ملے گا ،ایسا کر نے سے اس کا وراثتی حصہ ختم نہیں ہو گا، بشر طیکہ با پ کی وفا ت کے وقت وہ زندہ ہو، الگ ہو نے والے لڑکے نے اپنی کما ئی سے جو جائیداد بنائی ہے وہ اس کا حق ہے اور با قی دونو ں لڑکو ں نے زرعی اراضی خریدی ہے یہ ان کا حق ہے، لہذا طمع اور لا لچ کے پیش نظر ایک دوسرے کے حق پر ڈا کہ ڈالنا شرعاًدرست نہیں ہے، با پ کی زرعی اراضی سے جو حصہ اسے مل رہا ہے وہ اس کی بے ادبی اور گستا خی کی وجہ سے ساقط نہیں ہو گا اور نہ ہی دو نو ں بیٹو ں کی کما ئی سے خرید کر دہ زرعی اراضی سے حصہ لینے کا مطا لبہ کر نا اس کے لیے جا ئز ہے کیو ں کہ یہ ان کی اپنی کما ئی سے خرید کر دہ ہے اور وہ با پ کی ملکیت |