واضح رہے کہ صورت مسئولہ میں ضابطہ وراثت اس وقت جاری ہوگا جب میت کی تجہیز وتکفین اور دفن کے اخراجات، نیز قرض کی ادائیگی ہوجائے اور اگر کوئی وصیت وغیرہ ہے تو اسے بھی کل جائیداد کے 3/1 سے پورا کردیا جائے ،صورت مسئولہ بایں طور ہے۔ میت/ 9 بیٹی 2 ۔ بیٹی 2 ۔ بیٹی 2 ۔چچازاد نرینہ اولاد 3 ۔ چچا زاد مادینہ اولاد محروم۔ سوال ۔ ایک آدمی فو ت ہو ا جس کی شا دی نہیں ہو ئی تھی ، اس کا کو ئی بہن بھا ئی بھی نہیں ہے، صرف ایک سو تیلی وا لدہ زندہ ہے اور تین پدری بہنیں بقید حیا ت ہیں، اس کی جا ئیداد تقسیم کیسے ہو گی۔ (مقبو ل حسین ،بہا ولپو ر ) جوا ب ۔بشر ط صحت سوال واضح ہو کہ صورت مسئو لہ کلا لہ کی ہے، اس کی سو تیلی ما ں جا ئیداد سے محرو م ہے ،کیو ں کہ اس کا فو ت ہونے والے کے ساتھ کو ئی نسبی رشتہ نہیں ہے ، البتہ پدری بہنیں اس کی شر عی وارث ہیں قرآن کر یم نے اس قسم کی بہنو ں کا حصہ متعین کیا ہے ذوی الفر وض ہو نے کی حیثیت سے انہیں 3/2ملتا ہے ،ارشا د با ر ی تعا لیٰ ہے : "اگر دو بہنیں ہیں تو انہیں میت کی جا ئیداد سے دو تہا ئی ملے گا ۔" (4/النساء 176) دو سے زائد بہنوں کا بھی یہی حکم ہے۔ صورت مسئولہ میں تینو ں بہنوں کو کل جا ئیداد سے دو تہا ئی ذو ی الفروض کی حیثیت سے ملے گا اور باقی ایک تہائی بھی انہی پر رد کر دیا جا ئے گا کیو ں کہ اور کو ئی وا ر ث مو جو د نہیں ہے سہو لت کے پیش نظر کل جا ئیدا د کے 3حصے کر لیے جا ئیں، پھر ہر ایک بہن کو ایک ایک حصہ دے دیا جا ئے ۔(واللہ اعلم با لصوا ب ) سوال۔جدہ سے کسی سا ئل نے ایک طو یل سوال بذریعہ ای میل ارسال کیا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ میر ے دو بیٹے ہیں اور دو بیٹیا ں ہیں، میں اپنی زند گی میں ان تما م کی شا دیا ں کر کے ان کے حقو ق سے فا ر غ ہو چکا ہوں ،اب بڑے لڑکے نے میر ے سا تھ محا ذ آرا ئی شروع کر دی ہے، میری بیو ی بھی اس گستا خ اور نافر ما ن بیٹے کی ہم نو اہے اور میر ی خدمت سے انکا ر ی ہے، چھوٹا بیٹا میر ے سا تھ ہے، میر ے پا س کچھ جائیداد با قی ہے، بچیا ں اپنی خو شی سے میر ے چھوٹے بیٹے کے حق سے دستبردار ہو چکی ہیں، اب میں اپنے نا فر ما ن بیٹے کو اپنی جا ئیداد سے محروم کر نا چا ہتا ہو ں کیا میں شرعاً ایسا کر سکتا ہوں، نیز ان حالات میں جبکہ میری بیو ی نے میر ا سا تھ چھو ڑ دیا ہے کیا میں اسے طلا ق دے سکتا ہو ں، مجھے قیا مت کے دن مواخذ ہ تو نہیں ہو گا، کتا ب و سنت کی روشنی میں میری را ہنما ئی فر ما ئیں ۔ جوا ب۔ واضح ہو کہ بلا شبہ اولا د کا والدین کے ساتھ اچھا بر تا ؤ نہ کر نا اور ان کا گستا خ و نا فر ما ن ہو نا کبیرہ گنا ہ ہے۔ حدیث کے مطا بق قیامت کے دن اس قسم کے نا فر ما ن اور گستا خ بچے اللہ تعالیٰ کی نظر ر حمت سے محروم ہو ں گے اور انہیں کسی بھی صورت میں پا کیزہ قرار نہیں دیا جائے گا بلکہ انہیں اس جر م کی پاداش میں اللہ کے ہا ں درد نا ک عذاب سے دو چا ر ہو نا پڑے گا لیکن ان حا لا ت کے با و جو د والد کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی جا ئیدا د سے محض نافرمان اور گستا خ ہو نے کی وجہ سے کسی کو محروم کر دے ،جا ئیداد سے محرومی کے اسباب شریعت نے متعین کر دئیے ہیں مثلا ً:کفر ،قتل ،ارتد اد وغیرہ ان میں اولا د کا نا فرمان یا |