Maktaba Wahhabi

328 - 495
ٹھہرایا جاتا ہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے وضع کردہ ضابطہ میراث کے خلاف کھلی بغاوت ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' کہ مردوں کے لئے اس مال میں حصہ ہے جو والدین اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو ،اور عورتوں کے لئےبھی ا س مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ د اروں نے چھوڑا ہو، خواہ وہ مال تھوڑا یا بہت ہو اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے۔''(4/النساء:7) اس آیت کے پیش نظر کسی وارث کو بلاوجہ شرعی وراثت سے محروم نہیں کیاجاسکتا ۔ماہرین وراثت نے ان وجوہات کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہےجو وراثت سے محرومی کا باعث ہیں۔ عام طور پر اس کی دو اقسام ہیں۔ پہلی قسم میں وہ موانع شامل ہیں جو فی نفسہ وراثت سے محرومی کا باعث بنتے ہیں۔ان میں غلامی، قتل ناحق اور اختلاف ملت، یعنی کفر وارتداد و غیرہ ہیں۔ دوسری قسم میں وہ موانع ہیں جو فی نفسہ تو رکاوٹ کا باعث نہیں، البتہ بالتبع محرومی کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ان میں وارث اور مورث کا اشتباہ برسر فہرست ہے جیسے ایک ساتھ غرق ہونے والے ،آگ میں جل کر اس دنیا سے ر خصت ہونے والے ہیں ،اگر ان کے درمیان وراثت کا رشتہ قائم ہوتو ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے۔بشرطیکہ پتہ نہ چل سکےکہ ان میں پہلے اور بعد کون فوت ہوا ہے۔ احادیث میں بھی اس کی وضاحت ملتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے:''جو کسی کی وراثت کو ختم کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کی ہے اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی وراثت کو ختم کردیں گے۔''(شعب الایمان للبیہقی :ص 14/115) اس طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' جو اپنے وارث کو حصہ دینے سے راہ فرار اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا حصہ جنت سے ختم کردیں گے۔''(ابن ماجہ :کتاب الوصایا) اگرچہ مؤخر الذکر روایت میں ایک راوی زید العمی ضعیف ہے۔تاہم اس قسم کی روایت بطور تائید پیش کی جاسکتی ہے۔مختصر یہ ہے کہ ا گر بیٹا نا فرمان ہے تو وہ اپنی سزا اللہ کے ہاں پائے گا۔لیکن والد کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اسے جائیداد سے محروم کردے۔ بعض لوگ محض ڈرانے کےلئے ایساکرتے ہیں لیکن ایسا کرنا بھی کئی ایک قباحتوں کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔لہذا رائج الوقت ''عاق نامہ'' کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔ سوال۔فیصل آباد سے محمد دین لکھتے ہیں ،ہماری ایک عزیزہ فوت ہوگئی ہے،اس کی تین لڑکیاں اور چچا کی اولاد (لڑکے اور لڑکیاں) موجود ہے، متوفیہ کی جائیداد سے کس کوکتنا حصہ ملےگا؟ جواب۔بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں مرحومہ کی جائیداد سے دو تہائی کی حقدار اس کی بیٹیاں ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:''اوراگر اولاد صرف لڑکیاں ہوں(یعنی دویا) دوسے زیادہ تو کل ترکہ میں ان کا 3/2 ہے۔(4/النساء:11) لڑکیوں کو ان کا حصہ دینے کے بعد جو ایک تہائی 3/1 باقی ہے،اس کی حقدار چچا کی نرینہ اولاد ہے۔ حدیث میں ہے :'' کہ مقررہ حصہ لینے والے ورثاء سے جو ترکہ بچ جائے وہ میت کے قریبی مذکر رشتہ داروں کے لئے ہے۔''(صحیح بخاری :الفرائض 6732) سوال میں ذکر کردہ ورثاء میں چچا کی نرینہ اولاد ہی مذکر قریبی رشتہ دار ہے، لہذا بیٹیوں کو دینے کے بعد جو ترکہ باقی بچتا ہے وہ انہیں دیا جائے۔سہولت کے پیش نظر میت کی کل منقولہ جائیداد کے نو حصے کرلیے جائیں، ان میں دو ،دو حصے تینوں بیٹیوں کو اور باقی تین حصے چچا کی نرینہ اولاد کے لئے ہیں، چچا کی مادینہ اولاد یعنی لڑکیوں کو اس سے کچھ نہیں ملےگا۔
Flag Counter