Maktaba Wahhabi

323 - 495
اس سے معلوم ہو اکہ باپ کے لئے ایسا کرنا جائز نہیں کہ وہ اپنی زندگی میں اپنے کسی بیٹے کو عطیہ دے اور کسی کو نہ دے بلکہ عطیہ کے متعلق بیٹے اور بیٹی کی تفریق بھی درست نہیں ہے۔تمام اولاد کو برابر برابرعطیہ دینا چاہیے۔صورت مسئولہ میں متوفی نے جو ایک بیٹے کو نقدی اور مشینری دوسری اولاد کی نسبت زیادہ د ی ہے،اس کا یہ فعل ناجائز اور غیر شرعی ہے،اب اس کا حل یہ ہے: 1۔اس سے عطیہ واپس لیا جائے اور اسے مال متروکہ میں شامل کرکے تمام ورثاء اسے بقدر حصہ تقسیم کرلیں تاکہ کسی حق دار کی حق تلفی نہ ہو۔ 2۔جس قدر نقد اور مشینری ایک بیٹے کو دوسروں کی نسبت زیادہ ملی ہے،اتنی نقدی اور مشینری بقیہ اولاد میں سے ہر ایک اس کے متروکہ مال سے لے کر بقیہ مال کو بطور وراثت تقسیم کرلیں۔کیونکہ قرآن مجید میں ناجائز وصیت کرنے کے متعلق فرمایا ہے کہ'' ہاں اگر کوئی وصیت کرنے والے کی طرف سے جانبداری یا حق تلفی کا خطرہ محسوس کرے تو اسے چاہیے کہ وہ رشتہ داروں کے درمیان صلح کروادے، ایسا کرنے والے پر کوئی گناہ نہیں ہے۔''(2 /البقرہ :182) مرنے والے کے غلط اقدام کی اصلاح کی جاسکتی ہے۔بلکہ اخروی معاملات اور حقوق العباد کے پیش نظر ایسا کرناضروری ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب) سوال۔شجاع آباد سے مختار احمد لکھتے ہیں کہ ایک عورت نے فوت ہونے سے کچھ عرصہ قبل مبلغ پچاس ہزار ر و پے کسی کے پاس بطور ا مانت رکھے اور وصیت کی کہ اس رقم میں سے مبلغ بیس ہزار روپے میرے چھوٹے بیٹے کو دے دینا تاکہ اس کے ہاں رہنے سہنے، کھانے پینے او ر میری دیکھ بھال کرنے کا احسان مجھ پر نہ رہے۔ باقی تم کسی مسجد یا مدرسہ کو بطور صدقہ جاریہ دے دینا جبکہ اس کے پانچ بیٹے اور پانچ بیٹیاں زندہ ہیں۔ اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس رقم کو کیسے تقسیم کیا جائے؟نیز جو رقم مسجد یا مدرسہ کےلئے مختص ہے،اس سے کچھ حصہ متوفیہ کی پوتی کو دیا جاسکتا ہے؟ جواب۔واضح رہے کہ اسلامی ضابطہ وصیت کے مطابق اپنے وارث کو وصیت نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی ایک تہائی سے زیادہ وصیت کرنا درست ہے۔ اسی طرح کسی ناجائز کام کے لئے وصیت کرنا بھی جائز نہیں ،صورت مسئولہ میں تین باتیں ناجائز ہیں: 1۔اپنے بیٹے کے لئے وصیت کی گئی ہے، جبکہ وہ اس کا شرعی و ارث ہے۔ 2۔ایک تہائی سے زائد وصیت کی گئی ہے۔ 3۔دوسرے و رثاء کو محروم کیا گیا ہے۔ قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق ا س قسم کی وصیت نافذ ا لعمل نہیں ہوسکتی جب تک اس کی اصلاح نہ کرلی جائے، اس کا حل یہ ہے کہ مبلغ پچاس ہزار میں سے ایک تہائی نکال کر باقی رقم اس کی اولاد میں تقسیم کردی جائے قانون و راثت کے مطابق، باقی رقم کے پندرہ حصے بنا کر دو حصے فی لڑکا اور ایک حصہ فی لڑکی کے حساب سے بقیہ رقم تقسیم ہوگی۔شرعی وصیت کے مطابق ایک تہائی رقم مسجد یامدرسہ کو ہی دے دی جائے۔ اگر ورثاء رضا مند ہوں تو اپنے حصوں سے یتیم پوتی کا تعاون کریں۔مسجد یا مدرسہ کی رقم سے غریب پوتی کو دینا درست نہیں ہے۔نیز جوکچھ اس نے کھایا پیا ہے وہ بیٹے کاماں پر احسان نہیں جس کا بدلہ رقم کی صورت میں دیا جانا ضروری ہو بلکہ یہ اس
Flag Counter