ہے:’’اللہ تعالیٰ نے تمہاری اولاد کے متعلق فیصلہ کیا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔‘‘ (4/النساء11) سہولت کے پیش نظر مرحوم کی منقولہ اور غیر منقولہ اور موروثی وغیر موروثی جائیداد کے نوحصے کرلیے جائیں۔دو ، دو حصے تمام لڑکوں کو اور ایک ،ایک حصہ سب لڑکیوں میں تقسیم کردیاجائے۔اس کی تفصیلی تقسیم محکمہ مال کی ذمہ داری ہے۔ مرحوم کی جائیداد سے یتیم پوتوں اور پوتیوں کوکچھ نہیں ملے گا۔ کیونکہ شریعت کاضابطہ ہےکہ قریبی رشتہ داروں کی موجودگی میں دور کے رشتہ دار محروم رہتے ہیں، پوتوں اور پوتیوں کی نسبت بیٹے اور بیٹیاں زیادہ قریب ہیں، لہذا حقیقی اولاد کی موجودگی میں بیٹے کی اولاد محروم رہتی ہے ۔ہاں یتیم پوتوں کی وصیت کے ذریعہ کچھ دیا جاسکتا ہے ،بشرطیکہ وصیت کسی صورت میں ایک تہائی سے زیادہ نہ ہو اگر دیگر ورثاء انھیں وصیت کے بغیر کچھ دینے پر راضی ہوں تو ا س میں کوئی حرج نہیں ہے، رائج الوقت عائلی قوانین کےسہارے دادا کی جائیداد سے حصہ لینا اس کا مطالبہ کرنا شرعا جائز نہیں ،اگر ایسا کیا تودوسروں کاحق غصب کرنے کے مترادف ہے۔ سوال۔محمد ابراہیم بذریعہ ای میل پوچھتے ہیں کہ میری ایک مادری بہن فوت ہوگئی اور وہ لا ولد تھی۔اس کے ورثاء میں ہم دو بھائی اور اس کے چچا بھائی زندہ ہیں ۔متوفیہ کا ترکہ کیسے تقسیم ہوگا؟ جواب۔اسلامی ضابطہ میراث کے مطابق اگر مرنے والا لا ولد ہو تو اس کی جائیداد میں سے مادری بہن بھائی متعدد ہونے کی صورت میں ایک تہائی کے حقدار ہیں اور اس حصے کو میت کے بہن بھائی برابر تقسیم کریں گے۔جیسا کہ (4/النساء:13) میں اس کی وضاحت موجود ہے۔پھر یہ مقررہ لینے والوں سے جو باقی بچے گا وہ میت کے ان قریبی رشتہ داروں کے لئے ہے جو مذکر ہو، ا س کی وضاحت صحیح بخاری میں حدیث نمبر 6732 میں ہے۔سہولت کے پیش نظر متوفیہ کی جائیداد کو چھ حصوں میں تقسیم کرلیا جائے۔ دو حصے دونوں بھائیوں کو جو ماں کی طرف سے ہیں اور وہ آپس میں ایک ایک حصہ بانٹ لیں گے۔اور باقی چار حصے چچا زادبھائیوں کو مل جائیں گے۔ کیونکہ مقررہ حصہ لینے والوں کے بعد چچا زاد بھائیوں کے علاوہ اور کوئی قریبی رشتہ دار نہیں ہے جسے باقی حصہ دیاجائے۔ (واللہ اعلم بالصواب) سوال۔جیمس آباد خانیوال سے میاں ممتاز احمد لکھتے ہیں کہ ایک شخص اپنی زندگی میں اپنے بیٹے کو نقدی اور مشینری وغیرہ بطور عطیہ بقیہ اولاد کی نسبت زیادہ دے جاتاہے۔اب کیا اس کی بقیہ اولاد عطیہ نقدی او ر مشینر ی وغیرہ سے بطور وراثت حصہ وصول کرسکتے ہیں جبکہ وہ شخص خود فوت ہوچکا ہے۔ جواب۔اولاد کو عطیہ دینے کے متعلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:''کہ اگر کوئی اپنی اولاد میں سے کسی کو عطیہ دیتا ہے،دوسرے کو کچھ نہیں دیتا یہ جائز نہیں۔ اسے چاہیے کہ اولاد کے معاملے میں عدل وانصاف کرے دوسرے کو بھی اتنا ہی دے۔''یہ ہدایت کرنے کےبعد حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث بیان کر تے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے بیٹے کو ایک غلام بطور عطیہ دیا۔پھر ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تاکہ آپ کو اس پر گواہ بناؤں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کہ کیا سب بیٹوں کو اس طرح کا عطیہ دیا ہے۔''عرض کیا نہیں!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان مساوات کرو گویا آپ نے اس عطیہ کو مسترد کردیا۔''(صحیح بخاری :کتاب الھبہ) |