Maktaba Wahhabi

321 - 495
دی ہے ،تا کہ وہ باعز ت طو ر اپنے پا ؤں پر کھڑ ے ہو سکیں۔ اس کا یہ اقدا م بھی درست ہے، البتہ بر سر روزگا ر اولا د کو بھی نظر اندا ز نہیں کر نا چا ہیے تا کہ باہمی نفرت و کد و رت کی فضا پیدا نہ ہو ۔ انہیں بھی کچھ نہ کچھ ضرور دیا جا ئے تا کہ ما ں کی اولا د کے متعلق محبت پر کو ئی آنچ نہ آئے ۔ (واللہ اعلم با لصوا ب) سوال۔ہارون آباد سے عبد الرشید لکھتے ہیں کہ عباد اللہ لا ولد فوت ہوا ،پسماندگان میں سے صرف ایک پدری بھائی اور بیوہ بقید حیات ہیں، شریعت کے مطابق متوفی کا ترکہ کیسے تقسیم ہوگا؟ جواب۔شریعت اسلامیہ کی رو سے اگر فوت ہونے والا لا ولد ہے تواس کی جائیداد سے چوتھا حصہ اس کی بیوی کا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:''اگر تمہاری اولاد نہ ہوتو تمہاری عورتوں کاتمہارے ترکہ سے چوتھا حصہ ہے۔'' بیوہ کو مقررہ حصہ دینے کے بعد جو باقی بچے گا،وہ پدری بھائی کو مل جائےگا۔فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔:'' مقررہ حصے حقداروں کو دینے کے بعد جو باقی بچے وہ میت کے اس قریبی رشتہ دار کے لئے ہے جو مذکر ہو۔''(صحیح بخاری :کتاب الفرائض حدیث نمبر 673) صورت مسئولہ میں قریبی رشتہ دار پدری بھائی کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔ لہذا بیوہ کو4/1 دینے کے بعد 4/3 باقی بچتا ہے۔وہ متوفی کے پدری بھائی کا حصہ ہے۔اس بنا پر متوفی کی کل جائیداد کو چار حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصہ ( جو کل جائیداد کا3/1ہے)بیوہ کودے دیا جائے۔اور باقی تین حصے(جو کل جائیداد کا4/3 ہے) اس کے پدری بھائی کا حق ہے۔(واللہ اعلم بالصواب) سوال۔ضیا ء الرحمٰن گوہر میانوالی (خریدی نمبر 1540) لکھتے ہیں کہ میرے والد کی دو بیویاں تھیں، ایک سے تین لڑکے اور ایک لڑکی، جبکہ دوسری سے ایک لڑکا اور د و لڑکیاں ہیں۔بڑا بیٹا باپ کی زندگی میں فوت ہوگیا۔اس کے پانچ لڑکے اور دو لڑکیاں بقید حیات ہیں۔گویا میرے والد جب فوت ہوئے تو ان کے تین لڑکے تین لڑکیاں اور پانچ پوتے اور دو پوتیاں موجود تھیں۔اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ میرے والد کی جائیداد کیسے تقسیم ہوگی۔نیز بڑے بھائی کی اولاد کو اس سے حصہ ملے گا یا نہیں، جبکہ ہمارے ملک میں رائج الوقت عائلی قوانین کی رو سے دادا کی جائیداد سے مرحوم بیٹے کی اولاد کو حصہ ملتا ہے۔اس کے متعلق فتویٰ درکا ر ہے۔ جواب۔مرنے والا مرتے وقت جس منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد کا مالک تھا اسے بقدر حصہ شرعی ورثاء میں تقسیم کردینا چاہیے۔ہمارے ہاں یہ غلط مشہور ہوچکا ہے کہ صرف موروثی جائیداد ہی ورثاء میں تقسیم ہوتی ہے اور جو انسان نے خود کمائی ہو یا کسی طرف سے بطور ہدیہ ملی ہو اسے قابل تقسیم خیال نہیں کیا جاتا ،بلکہ اگر زندگی میں کسی جائیداد کا سبب قائم ہوچکا ہواور جائیداد مرنے کے بعد ملے وہ بھی ورثاء میں قابل تقسیم ہے، اس تمہیدی گفتگو کے بعد چونکہ والد کا بڑا بیٹا والد کی زندگی میں فوت ہوا ہے اس لئے اولاد کی موجودگی میں اس کی جائیداد سے والد کوچھٹا حصہ ملتا ہے۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' میت کے والدین میں سے ہر ایک کے لئے اس کے چھوڑے ہوئے مال کا چھٹا حصہ ہے، بشرطیکہ مرنے والے کی اولاد ہو۔''(4/النساء:11) صورت مسئولہ میں بڑے بیٹے کی اولاد موجود ہے، لہذا والد کو اس کی منقولہ وغیر منقولہ جائیداد سے چھٹا حصہ دیا جائے گا،والد کی اپنی ذاتی جائیداد اور بڑے بیٹے کی طرف سے ملنے والا چھٹا حصہ دونوں کو ملا کر ورثاء میں تقسیم کیاجائے گا۔چونکہ شرعی ورثاء میں تین لڑکے اور تین لڑکیاں ہیں، اس لئے جائیداد کو اس طرح تقسیم کیا جائے کہ لڑکے کو لڑکی سے دو گنا حصہ ملے۔ارشاد باری تعالیٰ
Flag Counter