کی پر ورش کے اخرا جا ت نہیں ڈالے جا ئیں گے، کیو نکہ وہ انہیں واپس لینے کے حق سے دستبردار ہو چکا ہے، اگر وہ بلو غ کے بعد انہیں واپس لینا چا ہتا ہے تو ان پر اٹھنے والے اخرا جا ت کا پو ر ا کر نا اس کی ذمہ داری ہے ۔ (ب) اگر والد مستقل طور پر بچی اپنی مطلقہ بیو ی کے حو الے کر چکا ہے اور آیندہ لینے کا ارادہ نہیں رکھتا تو وہ حق ولا یت سے محروم ہے، شا دی کے مو قع پر کسی بھی ہمدرد اور عقلمند رشتہ دار کو ولی مقرر کیا جا سکتا ہے، ماں کو حق ولا یت کسی صورت میں نہیں مل سکتا، اگر رشتہ دارو ں میں کو ئی اس قا بل نہ ہو تو محلے کے دا نا اور عقلمند آدمی پنچا یتی طو ر پر حق ولایت کو نبھا ئیں ۔ (ج) وہ اولا د جو مستقل طو ر پر با پ اپنی مطلقہ بیو ی کو دے چکا ہے وہ باپ کی وراثت سے محروم نہیں ہو گی وراثت سے محرومی کے اسباب شریعت نے مقرر فر ما ئے ہیں کہ اولا د مرتد ہو جا ئے یا با پ کو قتل کر دے تو حق وراثت سے خو د بخو د محرو م ہو جا تی ہے صورت مسئو لہ میں کو ئی ایسا سبب مو جو د نہیں جس کی بنا پر اسے با پ کی جا ئیداد سے محروم کیا جا ئے ۔(واللہ اعلم بالصواب ) سوال۔ علی پور سے مختا را ں ما ئی لکھتی ہیں کہ مجھے با پ کی طرف سے 6۔ایکڑ زمین ملی تھی ،میں نے اسے فرو خت کر کے کچھ رقم فریضہ حج کے لیے رکھ لی ہے اور کچھ رقم اپنے تین بے روز گا ر بیٹو ں کو دینا چا ہتی ہوں، اب بتا یا جا ئے کہ مجھے یہ رقم تمام بیٹو ں میں مسا و یا نہ تقسیم کر نی چا ہیے یا اسے تقسیم کر نے میں مجھے اختیا ر ہے؟ جواب ۔اللہ تعالیٰ نے انسا ن کو دنیا میں خو د مختا ر بنا کر بھیجا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شریعت کے دا ئرہ میں رہتے ہو ئے اللہ تعالیٰ کی عطا کر دہ نعمتوں کو جیسے چا ہے استعمال کر سکتا ہے۔ ما ل وجا ئیدا د بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اس میں بھی شر عی حدود کا خیا ل رکھتے ہو ئے جا ئز تصرف کر نے کی اجا زت ہے۔ اس بنا پر اپنی کسی ضرورت کے لیے اسے فرو خت بھی کیا جا سکتا ہے اور کسی کو اس کی ضرورت کے پیش نظر کچھ حصہ دیا بھی جا سکتا ہے۔ ارشا د نبو ی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :" ہر صاحب جا ئیداد اپنی جائیداد میں تصرف کر نے کا زیا دہ حق رکھتا ہے وہ جسے چا ہے استعما ل کر سکتا ہے ۔(سنن بیہقی2:178) البتہ اس تصرف کے لیے مندرجہ ذیل با تو ں کا خیا ل رکھا جا ئے (1)یہ تصرف کسی نا جا ئز اور حرا م کے لیے نہ ہو ۔ (2)جا ئز تصرف کر تے وقت کسی وارث کو محرو م کر نا مقصو د نہ ہو ۔ (3)اگر یہ تصرف بطو ر ہبہ اولا د کے لئے ہے تو نر ینہ اور ما دینہ اولا د کے سا تھ مسا و یا نہ سلو ک کیا جا ئے ۔ (4)اگر یہ تصرف بطو ر وصیت عمل میں آئے تو کل جا ئیداد کے 3/1سے زائد نہیں ہونا چا ہیے اور نہ ہی یہ وصیت کسی شرعی وارث کے لیے ہو۔ شرائط با لا کو سا منے رکھتے ہو ئے والدین اپنی جا ئیداد کو ضروریات کے لیے فرو خت بھی کر سکتے ہیں اور ضرورت مند اولا د کو بھی دے سکتے ہیں ،البتہ بطو ر عطیہ اگر اولا د کو کچھ دینا چا ہیں تو اس لڑکی اور لڑکے کی تمیز کیے بغیر تمام سے مسا و یا نہ بر تا ؤ کر نا ہو گا ، جیساکہ حدیث میں اس مسئلہ کو بڑی تا کید کے ساتھ بیا ن کیا گیا ہے ۔صورت مسئولہ میں اگر سا ئلہ نے اپنی جا ئیداد فرو خت کر کے کچھ رقم حج کی ادائیگی کے لیے رکھ لی ہے تو وہ ایسا کر نے میں حق بجا نب ہے۔ اس طرح اگر اسی نے کچھ رقم اپنے بے روز گا ر بچوں کو |