Maktaba Wahhabi

319 - 495
پر ٪369سود بھی دیا جا رہا ہے، جبکہ اس کے متعلق ارشاد با ری تعا لیٰ ہے :’’ اے ایما ن وا لو ! اللہ سے ڈرو اور جو سود با قی رہ گیا ہے وہ چھو ڑ دو ا گر تم اہل ایما ن ہو اور اگر ایسا نہیں کر تے تو اللہ اور اس کے رسول کے سا تھ جنگ لڑنے کے لیے تیا ر ہو جا ؤ ،اور اگر تم توبہ کر لو تو تم صرف اصل ما ل کے ما لک ہو ۔‘‘ (2/البقرۃ :279) نیز فر ما یا :" کہ جو شخص اپنے پا س آئی ہو ئی اللہ کی نصیحت سن کر با ز آگیا، اس کے لیے جو گز ر چکا سو گز ر چکا اور جو پھر دو با رہ اس حرام کی طر ف لوٹا، وہ جہنمی ہے، ایسے لو گ اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔(2/البقرۃ 175) اس لیے متو فی کے ورثا ء کو ہم نصیحت کر تے ہیں کہ وہ ان سر ٹیفکیٹس سے حا صل ہو نے والی اصل رقم ہی وصو ل کر یں ،اس پر ملنے والا سود آپ کا نہیں ہے اسے ہر گز وصو ل نہ کر یں، یہ سو د آپ کے دوسرے مال کو بھی خرا ب کر دے گا ،اگر چہ لو گ اسے "منا فع" کا خو بصو رت نام دیتے ہیں لیکن یہ سود ہے جس کی شر عاً اجا ز ت نہیں ۔(واللہ اعلم ) سوال۔بدو ملہی سے چو ہدری بشیر احمد بشر ملہی سوال کر تے ہیں کہ ایک آدمی کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، اس نے اپنی بیو ی کو طلاق دے دی ہے جو مؤثر ہو چکی ہے، عورت کے پا س ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے، آدمی نے انہیں حا صل کر نے کے لیے عدا لت سے رجو ع کیا تو عدا لت نے مو جو د ہ صورتحا ل کو بحا ل رکھا ہے کہ آدمی عورت سے بیٹی اور بیٹا نہیں لے سکتا ،اب سوال یہ ہے کہ : (الف ) جو بیٹی اور بیٹا عورت کے پا س ہے ان کے اخرا جا ت کس کے ذمے ہیں ؟ (ب) بیٹی کے نکا ح کے مو قع پر با پ اس کی ولا لت کا حق دار ہو گا یا نہیں ؟ (ج) کیا بیٹی اور بیٹا والد کی جا ئیداد کے وارث بن سکتے ہیں ؟جبکہ عدا لت نے بیٹی اور بیٹا عورت کو دے دیا ہے ۔ جوا ب ۔شریعت اسلا میہ نے بچے کی پر ورش کا حقدار ما ں کو ٹھہرا یا ہے، اس طرح چھو ٹے بچو ں کی پرورش کر نے کو شر عی اصطلا ح میں حضا نت کہا جا تا ہے، والد ہ کا یہ حق حضا نت متعدد روایا ت سے ثا بت ہے کیوں کہ بچے کے حق میں ما ں انتہا ئی مہربا ن ہو تی ہے اور پرو رش نگرا نی میں مر د کی نسبت زیا د ہ قدرت رکھتی ہے، چو نکہ اولا د کی نسبت با پ کی طرف ہو تی ہے اور وہ ہی ان کا حق دار ہو تا ہے، اس لیے دوران حضانت اٹھنے والے اخرا جا ت کا ذمہ دار بھی وہی ہے کہ ما ں کو جو حق حضا نت دیا گیا ہے اس کی کچھ حدود قیو د ہیں، مثلاً: (1)بچے بلو غت تک ما ں کے پا س رہ سکتےہیں، اس کے بعد با پ انہیں واپس لینے کا قا نو نی اور شر عی حق رکھتا ہے ۔ (2) اگر ما ں آگے نکا ح کر لیتی ہے تو بھی اس کا حق حضا نت ختم ہوجاتا ہے، حدیث میں اس کی وضا حت مو جو د ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :" کہ جب تک نکا ح ثا نی نہ کر ے بچے کی پرورش کی حقدار ہے۔‘‘(مسند امام احمد :1/182) (3) اگر ما ں کے پا س رہنے سے ان کی ذہنیت خرا ب ہو نے کا اند یشہ ہو یا جسما نی پرورش صحیح طو ر پر نہ ہو سکتی ہو تو بھی با پ کواپنی اولا د واپس لینے کا حق ہے ۔امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :"کہ اگر ما ں کسی غیر محفوظ جگہ پر رہا ئش رکھے ہو ئے ہے یا اخلا قی گراوٹ کا شکا ر ہے تو با پ کو اپنی اولا د واپس لینے کا حق ہے ۔ ‘‘ (فتا وی ابن تیمیہ: 34/131) صورت مسئولہ میں اگر با پ نے عدا لت کے فیصلے کو تسلیم کر لیا ہے اور وہ اپنی اولا د کو واپس لینے کا ارادہ نہیں رکھتا تو اس پر اولا د
Flag Counter