Maktaba Wahhabi

324 - 495
کی ذمہ داری تھی جو اس نے ادا کی ہے اگرچہ یہ ذمہ داری دوسرے بیٹوں پر بھی عائد ہوتی تھی جس کی ادائیگی میں انھوں نے کوتاہی کی ہے ،واضح رہے کہ یہ تمام معاملات وہی شخص سر انجام دے گا جس کے پاس رقم بطور امانت پڑی ہے۔(واللہ اعلم) سوال۔قصور سے محمد یحیی لکھتے ہیں کہ ایک شخص فوت ہونے سے قبل بیماری کی حالت میں وصیت کرتا ہےکہ میری کل جائیداد مسجد کو وقف کردی جائے، جبکہ ا س کی حقیقی بہن، حقیقی چچا ،حقیقی پھوپھی اورچچا زادبہن بھائی موجود ہیں، قرآن وحدیث کی رو سے کیا یہ وصیت جائز ہے؟ اگر جائز نہیں ہے تو ورثاء میں مذکورہ جائیداد کیسے تقسیم ہوگی؟ جواب۔واضح رہے کہ دین اسلام میں وصیت کے متعلق ضابطہ حسب ذیل ہے: 1۔وصیت کرنے والا صحت وتندرستی میں وصیت کرے۔مرض الموت میں کی ہوئی وصیت کاکوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ 2۔شرعی وارث کے حق میں وصیت نہیں کی جاسکتی ،اس کا مطلب یہ ہے کہ وصیت کے ذریعے مقررہ حصوں میں کمی بیشی یا کسی وارث سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ 3۔زیادہ سے زیادہ کل جائیداد سے ایک تہائی (3/1) کی وصیت کرنے کی اجازت ہے۔ صورت مسئولہ میں اگروصیت مرض الموت میں کی گئی ہے تو سرے سے کالعدم ہے، اسے نافذ نہیں کیا جاسکتا ۔اگروصیت مرض الموت کے وقت نہ تھی بلکہ عام بیماری کی حالت میں کی گئی تواس صورت میں بھی صر ف ایک تہائی (3/1)کی وصیت قابل اجراء ہوگی، تمام جائیداد کی وصیت کسی صورت میں جائز نہیں ہے، قرآن کریم نے اس قسم کی ناروا وصیت کو درست کرنے پر زور دیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:اگر کسی کو وصیت کرنے والے سے(کسی وارث کی) طرف داری یا حق تلفی کا اندیشہ ہو تو اگر وہ (وصیت کو بد ل کر) وارثوں میں اصلاح کرادے تو اس پر کچھ گناہ نہیں ہے۔''(2/البقرہ :182) اس بنا پر اگروصیت مرض الموت سے پہلے ہوئی تو جسے اجراء وصیت کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے اسے چاہیے کہ رضا کارانہ طور پر مسجد کے لئے ایک تہائی (3/1) نکال کر باقی جائیداد متوفی کے شرعی ورثاء کےحوالے کرکے خود سبک دوش ہوجائے تاکہ ایسا کرنے سے متوفی کا بوجھ بھی ہلکا ہوجائے ، بصورت دیگر متوفی اور وصیت کاذمہ دار ورثاء کی حق تلفی کے جواب د ہ ہوں گے۔حدیث میں ہے :'' کہ اگر کوئی شرعی وارث کو اس کے حق وراثت سے محروم کردیتا ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمایا ہے ،اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی وراثت کو ختم کردیں گے۔''(شعب الایمان :14/115) اب وصیت کالعدم ہونے کی صورت میں نصف جائیداد کی حق دار ا س کی حقیقی ہمشیرہ اور باقی نصف اس کے حقیقی چچا کو مل جائے گی۔اور وصیت کے اجراء کی صور ت میں جائیداد کے تین حصے کرلیے جائیں، ایک حصہ مسجد کو ،ایک حقیقی بہن کو اور ایک حقیقی چچا کو مل جائےگا۔دیگر ورثاء، یعنی پھوپھی اور چچا زاد بہن بھائی شرعاً محروم ہیں۔کیونکہ چچا کی موجودگی میں چچا زاد محروم ہوتے ہیں۔(واللہ اعلم بالصواب) سوال۔تحصیل دینہ سے چوہدری محمد غیاث خریداری نمبر 6117 لکھتے ہیں کہ اگر والدین اپنی اولاد کو کسی جائیداد کے متعلق وصیت کرجائیں اور اس میں بے انصافی اور حق تلفی کی گئی ہو، اولاد نافرمانی سے بچنے کے لیے اسے قبول کرلے تو کیا جن بچوں پر
Flag Counter