Maktaba Wahhabi

317 - 495
نا مز دگی کی دو صورتیں ممکن ہیں : (1)قانو نی ضرورت۔ (2)مالکانہ حقوق۔ (1)قانو نی ضرورت کا مطلب یہ ہے کہ نما ئند ہ کو صرف رقم وصول کر نے کے لیے نامز د کیا گیا ہے، اس سے زیا دہ اسے کو ئی اختیار نہیں ہے، اگر نا مز د کر دہ اس قا نو نی ضرورت سے نا جا ئز فائدہ اٹھا نا چا ہتا ہے تو عدا لتی چا ر ہ جو ئی سے اس کا سد باب ممکن ہے جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے ۔ (2)مالکا نہ تصرف کا مطلب یہ ہے کہ نما ئندہ کو صرف رقم وصول کر نے لیے ہی نہیں بلکہ اسے بحیثیت مالک کے نا مز د کیا گیا ہے۔ وہ وصو ل کر دہ رقم میں اپنی مر ضی کے مطا بق تصر ف کر ے ،یہ ما لکا نہ تصرف تین طرح سے ممکن ہے ۔ وراثت : یہ ایک غیر اختیا ری انتقال ملکیت کا نا م ہے جس کے ذریعے ایک متو فی کا تر کہ اس کے ورثا ء کے حق میں بطریق جا نشینی منتقل ہو جا تا ہے، اس میں متو فی کے ارادہ اور اختیا ر کو کو ئی دخل نہیں ہوتا لیکن نا مز دگی کی صورت میں ایک شخص اپنے دیگر حقیقی ورثا ء کو نظر انداز کر کے صرف ایک وارث یا غیر وارث کو نا مز د کر دیا جا تا ہے، حالا نکہ علم میرا ث کی اصطلا ح میں چند ورثا ء ایسے ہیں جنہیں کسی صورت میں بھی محرو م نہیں کیا جا سکتا، مثلاً: ابوین(ما ں با پ) ولدین(بیٹابیٹی) زو جین (خا و ند بیو ی)لیکن مر نے والے نے اپنے تصرفات کو نا جا ئز استعمال کر تے ہو ئےدیگر ورثا ء کو محروم کر کے صرف ایک کو وارث و ما لک بنا کر نا مز د کیا ہے جو شر عاًنا جا ئز ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :"کہ جو شخص کسی وارث کے مقرر ہ حصہ کو ختم کر تا ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے مقرر کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ قیا مت کے دن اسے جنت میں ملنے والے حصے سے محروم کر دیں گے۔‘‘ (شعب الایما ن بیہقی:14/115) اس طرح کی ایک روایت ابن ما جہ (حدیث نمبر 2703) میں بھی ہے، اس کے علا وہ یہ ناجائز نا مزدگی قطع رحمی بھی ہے جس کی شریعت میں اجا زت نہیں ۔اللہ تعا لیٰ نے ورثا ء کے حصص کو خو د مقرر فر ما یا ہے، کسی دوسرے کو ان میں تر میم واضا فہ کی قطعاً اجازت نہیں ہے، اگر کو ئی اللہ کی حدود سے تجا وز کر تے ہو ئے ایسا کر تا ہے تو شر عی طو ر پر وہ کا لعد م ہےجس کا کو ئی اعتبا ر نہیں ۔ وصیت: زند گی میں وصیت کے ذریعے بھی کسی کو اپنی جا ئیداد کا وارث بنا یا جا سکتا ہے لیکن شریعت نے اس کا ایک ضا بطہ مقرر کیا ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے : وصیت کسی وارث کے لیے نہ ہو، یعنی اگر شریعت کی رو سے اسے جا ئیداد سے حصہ ملتا ہے تو اس کے حق میں وصیت جا ئز نہیں۔ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے وقت فر مایا کہ :" اللہ تعا لیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے ، لہذا کسی وارث کے لیے وصیت جا ئز نہیں ۔‘‘ (سنن ابی داؤد:کتا ب الو صیۃ) وصیت کل جا ئیداد کے 3/1سے زائد نہ ہو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے فر ما یا تھا :"کہ تم اپنے ما ل سے زیا دہ سے زیادہ 3/1کی وصیت کر سکتے ہو اور یہ بھی بہت زیا ہ ہے۔‘‘ (صحیح بخا ری ) اس حدیث کے مطا بق اگر 3/1 سے زیا دہ کی وصیت کر تا ہے تو یہ بھی کا لعد م ہے ۔ وصیت کسی نا جا ئز کا م کے لیے نہ ہو، اگر کو ئی شخص غیر شرعی کا م کی وصیت کر تا ہے یا اپنا ما ل کسی غیر شر عی کا م میں لگا نے کی وصیت کر تا ہے تو ایسی وصیت کا کو ئی اعتبا ر نہ ہو گا۔ اس ضا بطہ وصیت کی خلا ف ورزی کر تے ہو ئے اگر کسی نے وارث کے حق میں وصیت
Flag Counter