Maktaba Wahhabi

311 - 495
تو والدین کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اس کی بیو ی کی جا ئیداد سے ملنے والا حصہ اخرا جا ت کے بد لے رکھ لیں اور اسے کچھ نہ دیں بشرطیکہ اس کا حصہ اٹھنے والے اخرا جا ت سے زائد نہ ہو، بیو ی کے والدین ایسا کر نے سے عند اللہ ما خو ذ نہیں ہو ں گے۔ کیونکہ وہ اپنا حق لینے کے لیے مجبو راً یہ اقدام کر رہے ہیں ۔ (3)والدین کی یہ سوچ بڑی دانشمندانہ ہے کہ ہم اپنی بچی سے ملنے والے حصہ کو کسی یتیم بچی کی شا دی پر خرچ کر دیں گے اور شوہر کا عہد کرنا بھی قابل تحسین تھا کہ وہ بھی اپنے حصے کی تمام رقم فی سبیل اللہ خرچ کر دے گا لیکن یہ وعدہ کر نے کے بعد اس نے جو کردار ادا کیا ہے، وہ انتہا ئی قا بل مذمت اور لا ئق نفرت ہے۔ ارشا د بار ی تعا لیٰ ہے :" اور اپنے وعدے کو پو را کرو کیو نکہ عہد کے متعلق ضرور پو چھا جا ئے گا ۔‘‘ (17/بنی اسرائیل :34) اس آیت کے پیش نظر خا و ند نے جو عہد شکنی کا ارتکا ب کیا ہے، وہ عند اللہ قابل مو اخذہ ہے ۔والدین کو چا ہیے کہ وہ خا و ند کی اس زیا دتی پر صبر کریں اور اپنی بچی کے ایصا ل ثواب کے لیے حسب وعدہ اپنے پرو گرا م کو پا یہ تکمیل تک پہنچا نے کے لیے خا وند کی اس عہد شکنی کو آڑ ے نہ آنے دیں ۔اللہ تعا لیٰ ہم سب کی آخرت ثمر آور بنا ئے ۔ سوال۔سمندری سے حا جی محمد رمضا ن لکھتے ہیں کہ ایک عورت جس کا خاوند فو ت ہو چکا ہے اور اس کے بطن سے اس کی اولا د بھی ہے ، بیو ہ اپنے خاوند کی مترو کہ جا ئیداد کی تقسیم سے پہلے ہی آگے نکا ح کر لیتی ہے، کیا ایسی عورت کو پہلے خا و ند کی جا ئیداد سے کچھ ملے گا یا اسے نکا ح کر نے کی وجہ سے سا بقہ خا وند کی جا ئیداد سے محروم ہو نا پڑے گا ؟ جوا ب ۔بشرط صحت سوال واضح ہو کہ مذکو ر ہ عورت اپنے خا و ند کی جائیداد سے 8/1لینے کا حق رکھتی ہے کیو نکہ خا وند کی اولا د بھی مو جو د ہے اور یہ حق اسے شریعت نے دیا ہے، ارشا د با ر ی تعا لیٰ ہے :" اگر تمہاری اولا د ہو تو ان بیو یو ں کو آٹھواں حصہ دیا جائے اس جا ئیداد سے جو تم نے چھو ڑ ی ہے ۔‘‘ (4/النسا ء 12) بیو ہ کے لیے آگے نکا ح کر لینا اس کا حق ہے اور یہ حق اس کے حق وراثت پر اثر انداز نہیں ہو تا وہ سو گو اری کے ایا م گزار کر آگے نکا ح کر سکتی ہے۔ اگر اس دورا ن پہلے خا وند کی جا ئیداد تقسیم نہیں ہو ئی تو الگ با ت ہے لیکن اسے اپنے حصے سے محرو م نہیں کیا جائے گا ۔یہ ایک جا ہلا نہ رسم ہے کہ اگر بیو ی آگے نکا ح کر ے تو اسے پہلے خا وند کی جا ئیداد سے محروم کر دیا جا ئے۔ شریعت میں اس قسم کی رسوم کے لیے کو ئی گنجا ئش نہیں ہے۔ واضح رہے کہ بیو ی کو آٹھواں حصہ دینے کے بعد جو با قی جائیداد ہے اس کی حقدار مر حو م کی اولا د ہے ۔(واللہ اعلم با لصوا ب ) سوال۔ بدو ملہی سے چو ہدری بشیر احمد ملہی لکھتے ہیں کہ ایک آدمی صا حب جا ئیداد ہے، اس کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے، خو د میا ں بیو ی بھی مو جود ہیں ،وہ اپنی غیر منقولہ (زرعی رقبہ ) جا ئیداد زند گی میں تقسیم کر نا چا ہتا ہے، اس کی وضا حت کر یں کہ کتنا حصہ کس کو ملے گا، نیز ایک با پ اپنی اولا د کی لا پرو ائی اور آوار گی سے تنگ آکر روپو ش ہو جا ئے تو کیا وہ عند اللہ مجرم ہو گا ،جبکہ اپنے بچو ں اور بیوی کو با ر با ر وار ننگ دے چکا ہو ۔ جواب ۔زند گی میں کسی کو اجا زت نہیں کہ وہ ضا بطہ میرا ث کے مطا بق اپنی جا ئیداد تقسیم کر ے ،کیو نکہ وراثت اس حق کو کہا جا تا
Flag Counter