حصہ اس کی بیو ی کے علا ج پر اٹھنے والے اخرا جا ت کے عو ض رکھا جا سکتا ہے ، اس کا علا ج مر حو مہ کے والدین نے کروا یا تھا کہ ہمیں اس کی جا ئیداد سے جو حصہ ملے گا وہ ہم کسی یتیم بچی کی شا دی پر خرچ کر دیں گے، اس کے شو ہر نے بھی یہی کہا تھا کہ میں بھی اپنے حصہ کا سب کچھ اللہ کی راہ میں دیتا ہو ں لیکن اب اس نے تمام سا ز و سامان اپنے والدین کے گھر پہنچا دیا ہے ،کیا اس سے اللہ کے ہا ں اس عہد شکنی کا موخذاہ ہو گا ؟ کتا ب و سنت کی رو شنی میں جوا ب دیں ؟ جوا ب ۔ یہ دراصل تین سوالا ت ہیں ۔تر تیب وار ان کا جو اب حسب ذیل ہے : (1)علم فرائض کی اصطلا ح میں اس طرح کی تقسیم در تقسیم کو مناسخہ کہا جا تا ہے۔ صورت مسئولہ میں دو دفعہ تقسیم کا عمل کر نا ہو گا ۔پہلے فو ت ہو نے والی مسما ۃ رشیدہ کا تر کہ تقسیم ہو گا ،پھر اس کے بعد فو ت ہو نے والی اس کی بیٹی جمیلہ کو ملنے والا حصہ موجو د ورثاء پر تقسیم کیا جا ئے گا ۔ پہلی تقسیم کے مطا بق خا و ند جمیل کو 4/1،والدعبدالرشیدکو 6/1،والدہ ر حمت خا تو ن کو بھی 6/1 ،اور دو نو ں بیٹیوں کو 3/2 یعنی بیٹی جمیلہ کو 3/1 اور بیٹی حمیدہ کو بھی 3/1 ملے گا ۔ دوسری تقسیم کے مطا بق بیٹی جمیلہ کو ملنے والا حصہ 3/1 مو جو د ورثا ء پر تقسیم ہو گا ،جس کی صورت یہ ہے کہ جمیلہ کی نانی رحمت خاتو ن کو 3/1 کا 6/1 اور با قی اس کے با پ جمیل کو عصبہ ہو نے کی حیثیت سے 3/1 کا 6/5 ملے گا ،اس کی بہن حمیدہ اور نانا عبدالرشید کو اس دوسر ی تقسیم سے کچھ نہیں ملے گا اور انہیں محروم قرار دیا جا ئے گا، اب نانی رحمت خا تو ن کا 3/1 کا 6/1=18/1ملتا ہے،اسے اپنی رشیدہ کے ترکہ سے 6/1 ملا تھا۔لہذا اس کا مجموعی حصہ6/1 + 18 /1 =18/4 ہے،اس طرح جمیل کو 1/3 کا 6/5=18/5نیز اسے اپنی بیوی مسما ۃ رشیدہ سےبھی 4/1ملا تھا۔لہذا اس کا مجموعی حصہ 4/18+1/5=36/19ہے۔ اب مو جو د ہ ورثا ء کے حصو ں کی نسبتیں حسب ذیل ہیں ۔ جمیل۔36/19،19، حمیدہ3/12،1،عبدالرشید 1/ 6،6، رحمت خا تو ن 18/4۔8۔ 36/45، اب درج با لا تفصیل کے مطا بق مر حو مہ کی منقو لہ اور غیر منقو لہ جائیداد کا حسا ب لگا کر اس کے 45حصے کر لیے جا ئیں۔ ان میں 19جمیل کو 12 حمیدہ کو 6 عبد الرشید کو اور 4رحمت خا تو ن کو دے دئیے جا ئیں ۔ (2)نکا ح کے بعد بیو ی کا نا ن و نفقہ اور دیگر اخرا جا ت خا و ند کے ذمہ ہیں ۔ارشا د با ر ی تعا لیٰ ہے :’’ کہ عورتو ں کا حق (مرد وں پر ) ویسا ہی جیسے دستو ر کے مطا بق (مردو ں کا حق )عورتو ں پر ہے ۔‘‘ (2/البقرۃ :228) نیز حدیث میں خا وند کے ذمہ کھانا ،لبا س اور دیگر اخرا جا ت ہیں، بیو ی کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ جب بیو ی بیما ر ہو جا ئے تو اس کے علا ج پر اٹھنے والے اخراجا ت خا و ند اداکرے گا۔ خا ص طو ر پر صورت مسئولہ میں جب خا و ند نے اس با ت کا اقرار بھی کیا ہے کہ میں اس پر اٹھنے والے اخرا جا ت ادا کرو ں گا ۔اگر وہ اس عہد و پیما ن کے بعد اس کی ادا ئیگی میں پس و پیش کرتا ہے |