Maktaba Wahhabi

312 - 495
ہے جو غیر اختیا ری طو ر پر بلا عوض دوسروں کو منتقل ہو جا ئے ،جبکہ زند گی میں تقسیم کر نے والا اپنے اختیا ر سے تقسیم کر تا ہے ، نیز وراثت کے حقدار وہ ہوتے ہیں جو مو رث کی وفا ت کے وقت زندہ مو جو د ہو ں، زندگی میں تقسیم کر نے کی صورت میں یہ اند یشہ بد ستو ر قا ئم رہتا ہے کہ وراثت کا حق کسی ایسے شخص کو بھی مل جا ئے جو اس کی زند گی میں فو ت ہو گیا ہو ، لہذا ضا بطہ میرا ث کے مطابق اپنی جا ئیداد تقسیم کر نا شرعاً درست نہیں ہے، ہا ں وصیت کی جا سکتی ہے جو تیسر ے حصہ سے زائد نہ ہو اور نہ ہی ایسے رشتہ دا ر کے لیے ہو جس کو وراثت سے حصہ ملنا ہے، اسی طرح بطور عطیہ بھی اپنی جا ئیداد اولا د کو دی جا سکتی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ نر ینہ ما دینہ اولا د کا لحا ظ کیے بغیر برابر برابر عطیہ دیا جائے، یعنی لڑکو ں اور لڑکیو ں میں مسا وا ت کی جا ئے ،اس عطیہ کے پس منظر میں کسی کو جا ئیداد سے محروم کر نے کے جذبا ت بھی نہ ہو ں، کسی حیلے بہا نے سے اپنی جا ئیداد سے محروم کر نا شر عاً جائز نہیں ہے ۔ سوال کے دوسرے حصہ کا جوا ب یہ ہے کہ اپنے اہل خا نہ کی لا پرو ائی سے تنگ آکر روپو ش ہو جا نا بھی جا ئز نہیں کیو نکہ حدیث میں ہے کہ وہ مؤمن جو لو گو ں سے میل ملا پ رکھتا ہے اور ان کی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے اس مؤمن سے کہیں بہتر ہے جو لو گو ں سے میل ملا پ نہیں رکھتا اور نہ ہی ان کی تکلیفوں پر صبر کر تا ہے ۔(مسند امام احمد:5/365) والد کو چا ہیے کہ وہ اپنے اہل خا نہ میں رہتے ہو ئے انہیں وعظ و نصیحت کرتا رہے اور انہیں بے لگا م نہ چھو ڑ ے ،اس کے رو پو ش ہو جا نے سے ان کی آوارگی میں اضافہ ہو گا ، اللہ تعا لیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے :" اپنے اہل خا نہ کو نماز کے متعلق کہتے رہو اور اس پر ہمیشگی کرو ۔‘‘ (20/طہ:132) اگر گھر میں رہتے ہو ئے خو د اپنے ایما ن کو خطرہ ہے یا اس کے بگڑنے کا اند یشہ ہے تو علیحدگی اختیا ر کی جا سکتی ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے :"ایک وقت ایسا آئے گا کہ مسلما ن کا بہترین مال اس کی بکریا ں ہو ں گی جن کو لے کر وہ پہا ڑوں کی چو ٹیو ں اور با رش کے مقا ما ت کی طرف نکل جا ئے گا اور فتنو ں سے راہ فر اراختیا ر کر کے اپنے دین کو بچا لے گا ۔‘‘ (صحیح بخاری :کتا ب الایما ن 19) امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر ایک عنوا ن با یں الفا ظ قا ئم کیا ہے :" گوشہ نشینی اختیا ر کر نے میں بر ی سو سا ئٹی سے آرام مل جا تا ہے ۔‘‘ (صحیح بخا ری :کتا ب الر قا ق ) امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث سے یہ ثا بت کر نا چا ہتے ہیں کہ اپنے دین کو بچا نے کے لیے علیحدگی اختیا ر کر نا اچھا عمل ہے، اس کے با و جو د اگر انسا ن میں فتنو ں کا مقا بلہ کر نے کی علمی عملی اور اخلا قی ہمت ہے تو معا شر ہ میں رہتے ہو ئے ان کی رو ک تھا م میں کو شا ں رہنا افضل ہے کیو نکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے پر فتن دور میں پہلے مکہ مکرمہ میں اس کے بعد مد ینہ منورہ میں اقا مت اختیار فر ما ئی، لیکن اہل خا نہ کو چھو ڑ کر روپو ش ہو جا نا ایک ایسی پسپا ئی ہے جو ایک مرد کی مرد انگی کے خلا ف اور اس کی جرأت و ہمت کے منا فی اقدام ہے۔ حضرت ابرا ہیم علیہ السلام نے اپنے والد سے تنگ آکر گھر چھو ڑ ا لیکن جب والد نے جا ن سے ما ر دینے کی دھمکی دی اور گھر سے نکل جا نے کو کہا تو پھر اپنے گھر کو خیر با د کہا ۔اسی طرح حضرت نو ح علیہ السلام کی بیو ی اور بیٹا نافرما ن تھے جس کا قرآن کر یم میں ذکر ہے ، لیکن حضرت نو ح علیہ السلام ان سے تنگ آکر رو پو ش نہیں ہو ئے۔ ان حقا ئق کی روشنی میں ہم گھر کے سر پرست سے گز ارش کر یں گے کہ وہ ان سے تنگ آکر رو پو ش ہو نے کی بجا ئے انہیں وعظ و نصیحت کرتا رہے اور ان سے علیحدگی اختیا ر کر کے ان کی مزید آوارگی کا
Flag Counter