ما لک ہو ں گے۔ تا ریخ فیصلہ سے پہلے جو ورثا ء فو ت ہو چکے ہیں انہیں اس کی جا ئیداد سے کچھ نہیں ملے گا ۔جیسا کہ صورت مسئولہ میں مفقو د کی بیو ی کے متعلق پو چھا گیا ہے۔ مر حو مہ کو اس کے خاوند کے زندہ یا مردہ ہو نے کی دونو ں صورتو ں میں کچھ نہیں ملے گا۔ کیونکہ میت کی جا ئیداد سے صرف زندہ ورثا ء کو حصہ دیا جا تا ہے۔ ایک تیسری صورت کا بھی امکا ن ہے جسے مو جو د ہ حا لا ت کے پیش نظر، نظر انداز نہیں کیا جا سکتا وہ یہ کہ اگر عدا لت کے فیصلہ کے بعد جائیداد تقسیم ہو گئی ،پھر وہ زندہ ظا ہر ہو ا تو جتنا تر کہ ورثا ء کے پا س مو جو د ہے ،حا صل کر لے گا، لہذا ضروری ہے کہ یہ تمام با تیں ورثا ء سے لکھو الی جائیں تا کہ بعد میں کسی قسم کے جھگڑے کی کو ئی صورت پیدا نہ ہو ۔ سوال۔ملتا ن سے ایک صاحب پو چھتے ہیں کہ ایک عورت فوت ہو گئی ،اس کے پسماند گا ن میں سے خا و ند، والد، والد ہ اور ایک بھائی اور دو بہنیں زندہ ہیں، اس کا ترکہ (حق مہر اور جہیز وغیرہ) کیسے تقسیم ہو گا ،نیز کیا خا و ند کو یہ حق ہے کہ متو فیہ کی بیما ر ی پر اٹھنے والے اخرا جا ت اپنی بیو ی کے حق مہر اور سا ما ن جہیز سے پو رے کر ے یا اس کا علا ج معا لجہ اس کے ذمے ہے، اس کے علا وہ متوفیہ کی شا دی وٹہ سٹہ کی بنیا د پر ہو ئی تھی، اس کی وفا ت کے بعد دوسری لڑکی والو ں سے طلا ق کا مطا لبہ کر دیا ہے جبکہ خا وند اسے آبا د کر نا اور اسے بسا نا چا ہتا ہے کیا ایسا مطا لبہ کر نا شر عاً صحیح ہے ؟ اگر صحیح ہے تو کیا حق مہر اور سا ما ن جہیز وغیر ہ واپس لینا درست ہے یا نہیں ؟ جواب۔ فو ت ہو نے والی عورت کا ترکہ (حق مہر اور سا ما ن جہیز وغیرہ ) با یں طو ر تقسیم کیا جا ئے گا ،کہ خا و ند کو نصف، والد ہ کو چھٹا حصہ اور با قی والد کو ملے گا ،جب کہ اس کے بہن بھا ئی محروم ہیں کیو نکہ والدہ مو جو د ہے دلا ئل یہ ہیں : (الف )قرآن میں ہے :’’ کہ جو ما ل تمہا ری عورتیں چھو ڑ مر یں اگر ان کی اولا د نہ ہو تو اس میں نصف حصہ تمہا را ہے۔‘‘ (4/النساء :12) (ب)ارشاد با ر ی تعا لیٰ ہے:’’ کہ اگر اولا د نہ ہو ا ور والدین اس کے وارث ہو ں تو والد ہ کے لیے ایک تہا ئی اور اگر میت کے بہن بھائی ہوں تو والدہ کو چھٹا حصہ ملتا ہے ۔‘‘(4/النساء :11) (ج)با پ محض عصبہ ہے، لہذا مقررہ حصہ لینے والو ں سے جو مال بچے اس کا حقدار با پ ہے ۔ (د) والد کی مو جو د گی میں بہن بھا ئی بحیثیت عصبہ محرو م ہو تے ہیں کیو نکہ با پ کا تعلق زیا دہ قوی اور قر یب ہے، جائیداد کے کل چھ حصے کر لیے جا ئیں، ان سے تین خا وند کو، ایک والدہ کو اور با قی دو والد کو دے دئیے جا ئیں ۔خا و ند کی ذمہ داری ہے کہ وہ دستو ر کے مطا بق اپنی بیو ی کے کھا نے پینے ،لبا س اور رہا ئش و دیگر ضروریا ت زندگی کا بندو بست کر ے، ارشا د با ر ی تعالیٰ ہے :" دودھ پلا نے والی ماؤں کا کھا نا اور کپڑا دستور کے مطا بق با پ کے ذمہ ہو گا ۔‘‘ (2/ البقرہ :233) نیز اللہ تعا لیٰ نے جو مر دوں کو عورتو ں پر بر تر ی عنا یت فر ما ئی ہے اس کی ایک وجہ با یں الفا ظ بیا ن کی " کہ وہ اپنا ما ل خرچ کر تے ہیں۔‘‘ 4)/النسا ء :34) نیز حدیث میں ہے :’’ کہ خا وند جو خو د کھا تا ہے اس سے بیو ی کو کھلائے اور جو پہنتا ہے اس سے اپنی رفقیہ حیا ت کو پہنا ئے۔‘‘ (مسند امام احمد :5/73) لہذا خا و ند کو عورت کے تر کہ سے اپنے حصہ سے زیا دہ لینے کی شر عاً اجازت نہیں ہے، بیما ری پر اٹھنے والے اخرا جا ت کا وہ خو د |