Maktaba Wahhabi

306 - 495
(2) ملا زم بیٹے کی کو شش سے خریداہوا آٹھ مر لے کا پلا ٹ جسے والد محترم نے اپنی زند گی میں فرو خت کر کے اس کی رقم چا رو ں بیٹو ں میں مسا و یا نہ تقسیم کر دی ۔ جہا ں تک پا نچ مر لے پلا ٹ پر تعمیر کر دہ مکا ن کا تعلق ہے وہ سب والد کی ملکیت تصور ہو گا اگر چہ اس کی تعمیر پر بڑے بیٹے نے رقم خرچ کی ہے چو نکہ وہ اپنے والد کے ساتھ ہی رہتا تھا اور ایسے حالات میں بڑے لڑکے والدین کو ہی کما ئی دیتے ہیں۔ ہا ں اگر والد کو کوئی چیز دیتے وقت وضا حت کر دی جا ئے کہ میں بطو ر امانت آپ کے سپرد کر رہا ہو ں اس پر ملکیت کا حق میرا ہی ہو گا ۔اس صورت میں لڑکے کا حق ملکیت بد ستو ر قا ئم رہے گا۔ جبکہ صورت مسئولہ میں مکان کے متعلق اس قسم کی کو ئی صرا حت مو جو د نہیں ہے، لہذا وہ مکا ن والد کی ملکیت ہے جو اس کی وفا ت کے بعد ورثا ء میں شرعی حصو ں کے مطا بق تقسیم ہو گا اور بڑے بیٹے کو تعمیر کی وجہ سے کو ئی زیا دہ حصہ نہیں دیا جا ئے گا ۔دوسری چیز جو آٹھ مرلہ پلا ٹ کی شکل میں ہے اور با پ نے اسے فرو خت کر کے اس کی رقم چا رو ں بیٹیو ں میں برابر تقسیم کر دی ہے، اس میں کچھ تفصیل ہے چو نکہ سوال میں اس کے متعلق وضا حت نہیں ہے، لہذا مکا نی حد تک اس کی صورت مندرجہ ذیل ہو سکتی ہے ۔ (الف) ملا زم بیٹے نے اپنے لیے ہی اپنے نا م وہ پلا ٹ خرید ااور اس کے دو بھا ئیو ں نے تعا ون کے طور پر اسے کچھ رقم دی ۔ (ب) تینو ں بیٹیو ں نے مشترکہ طو ر پر وہ پلا ٹ خریدا اور خرید تے وقت بطو ر شراکت رقم خر چ کی گئی۔ (ج) پلا ٹ والد کے نام خرید ا گیا اور خرید تے وقت رقم صرف کر نے والو ں نے وضا حت کر دی تھی کہ خرید کر دہ پلا ٹ ہما ری ملکیت ہو گا اور اس میں دوسرے ورثا ء شریک نہیں ہو ں گے اور وضا حت کا ان کے پا س کو ئی دستا ویز ی یا گو ا ہو ں کی شکل میں کوئی ثبو ت مو جو د ہو ۔ (د)زمین والد کے نا م خریدی گئی اور خرید تے وقت رقم صرف کر نے والو ں نے وضا حت نہیں کی کہ پلا ٹ ہما ری ملکیت ہو گا۔ اگر کی ہے تو ان کے پا س اس کا کو ئی تحریری یا ز با نی ثبو ت نہیں ہے۔ پہلی تین صورتو ں میں مر حو م کو اس پلا ٹ میں اپنی طرف سے تصرف کر نے کا کو ئی حق نہ تھا کیو نکہ وہ پلا ٹ کا ما لک نہ تھا۔ البتہ فرق یہ ہو گا کہ پہلی صورت میں پلا ٹ کی تما م رقم ملا ز م بیٹے کو ملے گی ۔اور دوسرے شریک بیٹو ں کو کچھ نہیں ملے گا کیو نکہ انہو ں نے بطو ر تعاون اس کی خرید میں حصہ ڈا لا تھا ،البتہ دو سری صورت میں فروخت کر دہ پلا ٹ کی رقم کو صرف کردہ رقم کے تنا سب سے تینو ں بیٹو ں میں تقسیم کر دیا جا ئے ۔ چو تھی صورت میں وہ پلا ٹ والد کی ملکیت تصور ہو گا جس میں اسے تصرف کا حق ہے لیکن زندگی میں اسے فرو خت کر کے اس کی رقم اولا د میں تقسیم کر تے وقت تما م لڑ کو ں اور لڑکیو ں کو مسا ویا نہ طو ر پر اس میں شا مل نہیں کیا گیا ۔بلکہ بڑے بیٹے اور تینو ں بیٹیوں کو اس سے محروم رکھا گیا جو شر عاًدرست نہ تھا ،کیو نکہ یہ ایک عطیہ کی شکل ہے جس میں نر ینہ اور ما د ینہ کا فرق کیے بغیر تما م اولا د کو برابر،برابر حصہ دیا جا تا ہے۔ لہذا اس تقسیم کو پنچائتی یا اپنے طور پر درست کیا جا سکتا ہے وہ اس طرح کہ اس رقم کو لڑ کیو ں سمیت تمام
Flag Counter