سوال ۔ میا ں چنوں سے نیامت اللہ پو چھتے ہیں کہ ایک عورت فو ت ہو گئی، پسما ند گا ن میں دو بیٹیا ں ،تین نو اسے، چا ر بہنیں اور چار بھتیجے بقید حیا ت ہیں مر حو مہ کی جا ئیداد کیسے تقسیم ہو گی ؟ جواب ۔صورت مسئولہ میں دو بیٹیو ں کو دو تہا ئی اور باقی ایک تہا ئی چا ر بہنوں کو ملے گا، نواسے اور بھتیجے محروم ہیں ۔قرآن کر یم میں ہے :’’ اگر عورتیں (بیٹیاں دویا دو سے زائد )ہو ں تو انہیں دو تہا ئی ملے گا ۔‘‘(4/النسا ء :11) حدیث میں ہے :’’بیٹیوں کی مو جو د گی میں بہنو ں کو عصبہ بنا یا جا ئے ۔‘‘ (صحیح بخا ری ) عصبہ بنا نے کا مطلب یہ ہے کہ بیٹیو ں کا حصہ نکا ل کر با قی ورثہ بہنوں کو دے دیا جا ئے، جب بہنیں عصبہ مع الغیر بنتی ہیں تو وہ بھا ئی کی طرح بن جا تی ہیں ،یعنی ان کی مو جو د گی میں بھا ئی کی اولا د بھتیجے وغیرہ محروم ہو ں گے، با قی رہے نوا سے تو وہ ذوی الارحا م ہو نے کی وجہ سے محروم ہیں، سہولت کے پیش نظر کل منقولہ اور غیر منقولہ جا ئیداد کے با ر ہ حصے کر لیے جا ئیں۔ چا ر ،چار دو نو ں بیٹیوں کو اور ایک ایک حصہ چا ر بہنوں کو دے دیا جا ئے ۔(میت /3/12) دوبیٹیاں 2/8،چاربہنیں 1/4۔چا ر بھتیجے محرو م ۔تین نواسے محروم۔ سوال۔گو جرا نوا لہ سے عمرا ن صدیق لکھتے ہیں کہ ہما رے والد محترم کا انتقا ل ہو گیا، پسما ند گا ن میں سے پا نچ لڑکے اور تین لڑکیاں اور بیوہ مو جو د ہے۔ جا ئیداد کی صورت حسب ذیل ہے : والد محترم کا تعمیر کردہ پانچ مر لے کا مکا ن جس کی زمین والد صا حب نے خریدی اور تعمیر بڑے بیٹے نے اپنی کما ئی سے کی جبکہ وہ والد محترم کے ساتھ ہی رہتا تھا، بعد میں وہ الگ ہو گیا ،پھر ایک ملا زم لڑکے نے کو شش کر کے آٹھ مر لے کا ایک پلا ٹ خرید ا ،اس پر اٹھنے والے زیا دہ تر اخرا جا ت اسی ملا ز م بیٹے نے برا دشت کیے ،البتہ دو بیٹیوں نے بھی ہمت کے مطا بق اس میں کچھ حصہ ڈا لا، چھوٹے بیٹے نے اس میں کوئی حصہ نہیں ڈا لا کیو نکہ وہ ابھی چھوٹا تھا ۔پلا ٹ کی رجسٹری کے وقت ملا زم بیٹے نے والد محترم سے کہا کہ اس پلا ٹ میں چاروں بھا ئیوں کو برابر برابر شریک نہ کر یں بلکہ صرف شدہ رقم کے تنا سب سے کم و پیش حصہ ہو نا چا ہیے لیکن والد محترم نے اس پلا ٹ کو فرو خت کر کے اس کی رقم چا رو ں بیٹو ں میں برابرتقسیم کر دی ۔ اب وضا حت طلب با ت یہ ہے کہ مذکو رہ 5 مر لے پر بنا ہو ا مکا ن جس کی تعمیر پر صرف بڑے بیٹے کی رقم خرچ ہو ئی ہے، وہ تمام ورثا ء میں شرعی حصو ں کے مطا بق تقسیم ہو گا یا بڑے بیٹے کو کچھ زیادہ حصہ ملے گا ؟ نیز پلا ٹ والد محترم نے اپنی زند گی میں چا رو ں بیٹوں کو برابربرا بر دے دیا تھا ،ان کا یہ طرز عمل صحیح تھا یا نہیں ؟ اگر صحیح نہیں تو اب اس کی تلا فی کیسے ہو سکتی ہے، نیز کیا پا نچو ں بیٹے اور تین بیٹیاں والد محترم کی زندگی میں کیے گئے اس تصرف پر شر عاً اعترا ض کر نے کا حق رکھتے ہیں ؟ جو اب ۔بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں بیا ن کر دہ دو چیز یں فیصلہ طلب ہیں: (1) والد محترم کے خرید کر دہ پا نچ مر لہ پلاٹ پر بڑے بیٹے کی کما ئی سے تعمیر کر دہ مکا ن ۔ |