ہو گا جس کی تفصیل حسب ذیل ہے : حسب وصیت پوتے،پوتی کا حصہ :1/4۔باقی جائیداد:3/4۔بیوہ کا حصہ 3/4 کا 8/1 =32/3۔ بیٹے کا حصہ:4/3۔32/3 =32/21۔ کل حصص: بیٹا = 32/21 بیوہ = 32/3 پوتا پوتی =4/1= 1'2'3'8 یعنی کل جا ئیداد کے 32حصے ہو ں گے جن میں سے 4/1 حصے پو تے اور پو تی کو بلحا ظ وصیت دیئے جا ئیں گے ۔با قی 24حصو ں سے 8/1 یعنی 3حصے بیوہ کو ،اس کے بعد باقی ما ندہ 21حصص لڑکے کو مل جا ئیں گے، مر حو م کی جا ئیداد اس طرح تقسیم ہو گی :پو تے اور پو تی کو بحیثیت وارث تو کچھ نہیں ملے گا، البتہ وصیت کے مطا بق وہ دادا کی جا ئیداد سے حسب وصیت حقدار ہیں۔ وصیت کا اجراء تقسیم وراثت سے پہلے ہو گا، پھر با قی جا ئیداد کو حسب تفصیل با لا تقسیم کیا جا ئے ۔(واللہ اعلم بالصواب ) سوال۔ملتا ن سے محمد حسین لکھتے ہیں کہ عرصہ ہو ا حکو مت نے ہما رے والد محترم کو پلا ٹ دیا تھا جسے ہما رے والد تعمیر کر کے اس میں رہا ئش پذیر ہو گئے۔ کچھ عرصہ بعد حکو مت نے ہما رے والد محترم سے پلا ٹ کی قیمت کا مطا لبہ کیا تا کہ مستقل طور پر مذکو رہ پلاٹ ان کے نا م منتقل ہو جا ئے، اس وقت ان کے پا س کو ئی رقم نہ تھی، ہما رے بڑے بھا ئی نے اپنی کما ئی سے اس پلا ٹ کی رقم ادا کر دی، ادا ئیگی کے بعد وہ پلا ٹ ہمارے والد کے نا م رجسٹری ہو گیا ،ان کی وفا ت کے بعد پلا ٹ دو نو ں بھا ئیو ں کے درمیا ن وجہ نزا ع بن گیا ،بڑے بھا ئی کا مو قف ہے کہ میں نے اس کی قیمت ادا کی تھی اس لیے میں اس کا ما لک ہو ں ،اس میں اور کو ئی شریک نہیں ہے، جبکہ میرا مو قف ہے کہ اس پلا ٹ کی رجسٹری والد محترم کے نا م تھی اس لیے وہی اس کے ما لک تھے۔ ان کی وفا ت کے بعد بطو ر وراثت میں بھی اس کا حقدار ہو ں۔ واضح رہے کہ والد مرحو م کے ورثا ء میں ہم دو نو ں زندہ ہیں ۔ جواب۔واضح رہے کہ صورت مسئولہ میں مذکو رہ پلا ٹ کا ما لک وہی ہے جس کو حکو مت نے الاٹ کیا ہے ،جس شخص نےاس پلاٹ کی قیمت اداکی ہے وہ صرف اس بنا پر اس کا ما لک نہیں ہو سکتا کہ اس نے اس کی رقم ادا کی ہے کیو نکہ حکو مت کا مطالبہ جس شخص سے تھا وہ اس کا ما لک ہو گا ، بیٹے نے اگر رقم با پ کو دی ہے تو حسن سلو ک اور با پ سے خیرخوا ہی تو قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اسے بیٹے کی ملکیت کی وجہ نہیں بنا یا جا سکتا ،لہذا با پ کے فو ت ہو نے کے بعد ہر قسم کی منقو لہ اور غیر منقولہ جا ئیداد میں دو نو ں بیٹے برابر کے شریک ہیں اگر با پ زندگی میں کسی کے نا م رجسٹری کرا گیا ہے تو اس کا یہ اقدام بھی شر عاً درست نہیں ہے ،دو نو ں بیٹے اس کے غلط اقدام کی درستگی کے شرعاً پا بند ہیں لیکن چو نکہ ایک بیٹے نے پلا ٹ کی پو ری رقم ادا کی ہے، اس لیے اس کی داد رسی بھی ہو نی چاہیے، جس کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ پلا ٹ کی رجسٹری کے وقت جتنی رقم ادا کی گئی تھی اس وقت کے حسا ب سے اس کی ما لیت معلو م کی جائے، اس وقت سونے کا کیا نرخ تھا ،اس کے مطا بق رقم کا جتنا سو نا آ سکتا تھا ،اس کا نصف یا مو جو د ہ بھا ؤ کے مطا بق اس سو نے کی قیمت کا نصف ادا کر کے دوسرا بھا ئی اس پلا ٹ میں شریک ہو سکتا ہے ۔پرا نی کر نسی کی ادائیگی پر اس پلا ٹ میں شریک نہیں ہو سکے گا، پھر پلا ٹ کی مو جو د ہ با زاری قیمت لگا کر با ہمی تصفیہ کر لیا جا ئے ،یعنی ایک بھائی دوسر ے کو اس کی نصف قیمت ادا کر کے تمام پلا ٹ کا ما لک بن سکتا ہے ۔(واللہ اعلم بالصواب) |