سے نصف یعنی 2/1 دے دیا جا ئے اور بہنو ں کے چا ر حصوں سے ایک حصہ کم کر کے انہیں صرف تین حصے دئیے جا ئیں ۔اس طرح عول کی ضرورت نہیں رہتی ۔لیکن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مو قف اس لیے درست نہیں ہے کہ تمام مقررہ حصہ لینے والے حقدار جو کسی درجہ میں جمع ہوں ازروئے استحقاق برابر ہیں اور کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں دی جا سکتی، چو نکہ سب کا استحقاق بذریعہ نص قرآن قا ئم ہو ا ہے ،لہذا سب کا استحقا ق برابر ہو گا اور ہر شخص اپنا اپنا پو را پو را حصہ لے گا اور اگر تر کہ حسب حصص مو جو د نہ ہو جیسا کہ مو جو د ہ صو رت میں ہے تو سب کے حصوں میں برابر کمی کی جا ئے گی اور عول کے ذریعے سے جو مخرج بڑھا یا جا تا ہے اس کی وجہ سے جو نقصا ن عا ئد ہو وہ تمام مستحقین پر بقدر تنا سب پھیلا دیا جا ئے۔ یہی راجح ہے اور اسی پر امت کا عمل ہے ،البتہ شیعہ حضرات نے اس سے اختلا ف کیا ہے، وہ حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہ کے مو قف سے اتفا ق کر تے ہیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا سا تھ چھو ڑ دیتےہیں ان کے نز دیک اگر جملہ حصص کی میزا ن جا ئیداد کی اکائی سے متجا وز کر جا ئے تو اس اضا فہ کو بیٹیوں اور بہنوں کے حصص سے منہا کر دیتے ہیں تو معلو م ہو تا ہے کہ صورت مسئو لہ میں قاضی محمد خا ں کو بھی اس لیے اختلا ف ہے کہ خا وند ہو نے کی حیثیت سے ان کے حصہ میں عول کی وجہ سے معمولی سی کمی واقع ہو ئی ہے ،دلو ں کے حا لا ت تو اللہ ہی بہتر جا نتا ہے۔ بظاہر قرائن سے یہی معلو م ہو تا ہے ۔ با قی پٹواریو ں کا حوالہ اس لیے دیا گیا تھا کہ جائیداد اگر زمین کی شکل میں ہو تو ہر وارث کو کتنی کنا ل یا مرلے یا کتنی سرسائیاں ملیں گی اس تقسیم کی ذمہ داری مفتی پر نہیں ہے کیو نکہ اس نے علم وراثت پڑھا ہے محکمہ ما ل کے کو رس نہیں کئے ہیں، لہذا ہم نے فتوی میں جو مشورہ دیا ہے اس میں اللہ کی کسی حد کو نہیں تو ڑا ہے ۔اللہ تعالیٰ حق سمجھنے اور اس پر عمل کی تو فیق دے ۔ سوال۔ بصیر پو ر سے سرداراں زوجہ سلطا ن لکھتی ہیں کہ میرے ما موں جب فو ت ہو ئے تو اس کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں زندہ تھیں، دو نو ں بیٹوں نے اپنی بہنو ں سے پو چھے بغیر غیر منقو لہ جا ئیداد ،یعنی زمین آپس میں با نٹ لی، بعد میں ایک بیٹے نے اللہ سے ڈرتے ہو ئے اپنی بہنوں کو ان کا حصہ واپس کر نے کی پیش کش کر دی، بہنو ں نے اسے اپنا حصہ معاف کر دیا ،دوسرا بیٹا جب بیما ر ہو ا تو بہنوں نے اس سے اپنے حصے کا مطا لبہ کیا ،اس نے حصہ دینے کا وعدہ کر لیا لیکن وہ وعدہ پو را کیے بغیر مر گیا ،چو نکہ با ت پہلے چلی ہوئی تھی اس لیے بہنو ں نے اس کی اولا د سے مطالبہ کیا کہ تمہا رے با پ کے سر پر ہما رے حصے کا بو جھ ہے وہ ادا کر یں لیکن انہو ں نے ان کا حق دینے سے انکا ر کر دیا۔ اب کیا بہنو ں کو اپنے بھا ئی کی اولا د سے اپنے حق کا مطا لبہ کر نے کا شرعاً جوا ز ہے یا نہیں ؟ کیا اولا د بھی پا بند ہے کہ وہ اپنے با پ کا قر ض ادا کر ے اگر اولا د دینا چا ہے تو اس بھا ئی کی جا ئیداد سے اب بہنو ں کو کتنا حصہ ملنا چاہیے؟ جوا ب ۔ بشرط صحت سوال واضح ہو کہ صورت مسئولہ میں شرعی تقسیم اسی طرح تھی کہ کل جا ئیداد کو چھ حصو ں میں تقسیم کر لیا جا تا، دو دو حصے بیٹو ں کو اور ایک ایک حصہ بیٹیوں کو دیا جا تا لیکن بیٹیوں نے اپنی بہنوں کو محروم کر کے خو د ہی غیر منقو لہ جا ئیداد پر قبضہ کر لیا ،اس طرح بہنو ں کو ملنے والا کل غیر منقو لہ جا ئیداد کا 3/1بھی بھا ئیوں کے پا س چلا گیا اب چو نکہ بہنیں ایک بھا ئی کے پاس والے حصے (6/1)سے دستبردار ہو گئی ہیں اور دوسرے بھا ئی سے اپنے با قی حصہ (6/1)کا مطالبہ کیا تھا اور وہ وعدہ ادائیگی کے با و جو د ادا کیے بغیر فو ت ہو گیا ہے، اب بہنوں کا با قی حصہ 6/1ان کے بھا ئی کی اولا د کو منتقل ہو چکا ہے، اس لیے انہیں شر عاً یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنے با پ سے ملنے والے 6/1حصہ کا مرنے والے بھا ئی کی اولاد سے مطا لبہ کر یں ،اولا د کو بھی چا ہیے کہ وہ اپنی پھو پھیوں کو ان کا |