Maktaba Wahhabi

301 - 495
جا ئے گا، تقسیم میں سہو لت کے پیش نظر ہم نے لکھا تھا کہ کل جا ئیداد کے چھ حصے کر لیے جا ئیں ،نصف یعنی تین حصے خا و ند کو اور دو تہا ئی یعنی چا ر حصے تینو ں بہنوں کو دئیے جا ئیں ،چو نکہ چھ حصو ں سے ورثا ء کو ملنے والے سہا م زیا دہ ہیں ،اس لیے یہاں عول ہو گا، اس لیے کل جا ئیدا د کے چھ کے بجا ئے سا ت حصے کر لیے جائیں، ان سا ت حصو ں میں سے تین خا و ند کو اور با قی چا ر بہنوں کو مل جائیں گے۔ آخر میں یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ جا ئیدا د کی تفصیلی تقسیم محکمہ مال یعنی پٹواری کے ذمے ہے، وراثت کے فتو ی میں صرف حصو ں کا تعین کیا جاتا ہے ،تقسیم کا عمل مفتی کے ذ مے نہیں ہے ۔ ادارہ ’’اہلحدیث ‘‘کی وسا طت سے ہمیں ایک خط مو صول ہو ا جس میں قا ضی محمد خا ں لکھتے ہیں کہ " میر ے حق ورا ثت کے سوال پر جو مشو رہ دیا گیا ہے وہ اللہ تعا لیٰ کی مقرر کر دہ حدود کی مخالفت کر تا ہے، نیز یہ مسئلہ بڑی اہمیت کا حا مل ہے، اس میں بڑی محنت درکا ر ہے ، اسے عو ل یا پٹواریوں کے رحم و کر م پر نہیں چھو ڑ ا جا سکتا ۔(الی آخر ہ) جوا ب ۔ہم نے سوال کا جوا ب قرآن کر یم کی آیا ت کے حو الہ سے دیا تھا، ہما رے نز دیک ہر مسئلہ ہی بڑی اہمیت کا حا مل ہو تا ہے ، اس لیے سوالات کے جو اب میں محنت بھی کی جا تی ہے اور احسا س ذمہ داری بھی ہو تا ہے، کیو نکہ ہما ر ے نز دیک مفتی کا منصب یہ ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیا بت میں رہتے ہو ئے سوالات کے جواب دیتا ہے۔ اس مختصر وضا حت کے بعد کچھ ملا حظا ت پیش خدمت ہیں : (1)پر چہ "اہل حدیث "کو ئی کا رو با ر ی میگز ین نہیں ہے کہ اس سے دنیا وی منفعت ہو تی ہو، بلکہ دنیا وی لحا ظ سے دینی جرا ئد خسارے میں رہتے ہیں، البتہ دینی لحا ظ سے یہ مفا د ضرور ہو تا ہے کہ ان سے دین اسلا م کی سر بلندی اور اسلامی تعلیما ت کی نشرو اشاعت مقصود ہو تی ہے ،شا ید سوالا ت کے جو اب کے لیے خریدا ری نمبر کی پا بندی بھی اس لیے ہے کہ اس کے خریدار زیا دہ ہوں ،لیکن یہ با ت اخلا قی لحا ظ سے صحیح نہیں ہے کہ دو سروں کے خریداری نمبر کا سہارا لے کر سوالا ت پوچھے جا ئیں۔ ویسے بھی سوال و جواب کے کا لم میں خریدار یا غیرخریدار کو خا طر میں نہ لاتے ہو ئے جواب دئیے جا تے ہیں ۔ (2)عول کا سہارا مجبو اً لیا جا تا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب پہلے عو ل کا حکم دیا تھا ۔ ان کے زما نے میں ایک ایسی صورت واقع ہو ئی کہ اصحا ب فرائض سے سہا م تر کہ کی اکا ئی سے زیا دہ تھے ،جیسا کہ مو جو دہ صورت مسئولہ میں ہے۔ آپ نے کبا ر صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم سے مشورہ فر ما یا ۔حضرت عبا س بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے عو ل کا مشورہ دیا جس سے تمام صحا بہ نے اتفاق فر ما یا ۔ ان میں حضرت عثما ن ، حضرت علی ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم جیسے مجتہد ین صحا بہ کرا م شا مل تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد ابن عبا س رضی اللہ عنہ نے عو ل کے مسئلہ میں صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم کے متفقہ مسئلہ میں اختلا ف را ئے کیا۔ اگر حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہ کی مخا لفت مشہو ر نہ ہو جا تی تو عو ل کے مسئلہ پر اجما ع قطعی کا حکم لگا دینا یقینی ہو جاتا ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عو ل کی ضرورت کو با یں الفا ظ بیا ن فر ما یا :" کہ مجھے قرآن کر یم سے یہ معلو م نہ ہو سکا کہ مقرر ہ حصہ لینے والو ں میں سے کو ن قا بل تقدیم ہے اور کو ن قا بل تا خیر تا کہ مقد م کو پہلے اور مؤخر کو بعد میں کر دیا جائے۔ اس لیے انہو ں نے سب اصحا ب فرا ئض کے در میا ن یکسا نیت پیدا کر نے کے لیے عو ل کا طریقہ جا ر ی فر ما یا ۔حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہ کے نز دیک خا وند قو ی حقدار ہے ،اس لیے اسے پورا پو را حصہ دیا جا ئے اور بہنیں کمزور حصہ دار ہیں ،ان کے حصوں میں کمی کی جا ئے۔ صورت مسئولہ میں مسئلہ چھ سے بنتا ہے لیکن سہا م سا ت ہیں۔ ابن عبا س رضی اللہ عنہ کے نزدیک خا وند کو کل جا ئیداد
Flag Counter