اس کے حصہ اسلامی 8/1سے لڑکی کے چچا زا د بھا ئیوں کو کچھ نہیں ملے گا، وہ صرف پہلی تقسیم میں 8/3کے حقدار ہیں اور اسی حصہ کو لینے کے لیے وہ عدالتی چا رہ جو ئی کر نے کے مجا ز ہیں، اس سے زیا دہ کے وہ حق دار نہیں ہیں ۔(واللہ اعلم ) سوال۔لالہ مو سی ٰ سے بو اسطہ ذیشا ن خریداری نمبر5695قا ضی محمد خاں لکھتے ہیں کہ میر ی بیو ی فو ت ہو گئی ہے ،اس کے نہ والدین زندہ ہیں اور نہ کو ئی اولا د ہے، صر ف اس کا خا و ند اور تین حقیقی بہنیں زندہ ہیں اس کی جا ئیداد کیسے تقسیم ہو گی ؟ جوا ب ۔صور ت مسئلہ کلا لہ کی ایک صورت ہے چو نکہ اولا د نہیں ہے، اس لیے خا وند کو اس کی منقو لہ اور غیر منقو لہ جا ئیدا د سے نصف ملےگا ۔ ارشا د با ر ی تعا لیٰ ہے :" اور تمہیں اس ما ل کا نصف ملے گا جو تمہا ری بیو یاں چھو ڑ مریں بشر طیکہ ان کے ہا ں کو ئی اولاد نہ ہو۔ (4النسا ء :12) اور تین حقیقی بہنو ں کو کل جا ئیداد سے دو تہا ئی یعنی 3/2 ملے گا ۔ارشا د بار ی تعا لیٰ ہے :" اگر میت کی دو بہنیں (یا دو سے زیا دہ ) ہوں تو انہیں میت کے تر کہ سے دو تہا ئی ملے گا ۔تقسیم میں سہو لت کے لیے بنیادی طو ر پر کل جا ئیدا د کے چھ حصے کر لیے جا ئیں ، نصف یعنی تین حصے خا و ند کو اور دو تہا ئی یعنی چا ر حصے تین بہنوں کو د ئیے جا ئیں ۔اس صورت مسئلہ میں دو با تو ں کو پیش نظر رکھا جائے ۔ (1)جس صورت مسئلہ میں کل حصو ں سے ورثاء کو ملنے والے سہا م زیادہ ہو جا ئیں وہا ں عو ل ہو تا ہے ،جیسا کہ مو جو د ہ صورت مسئلہ میں ہے کیونکہ جا ئیداد کے کل حصے چھ ہیں لیکن جب خا وند کے تین اور تین بہنوں کے چا ر حصو ں کو جمع کیا تو یہ سا ت سہا م بنتے ہیں، اس لیے تقسیم کے عمل کو پو را کر نے کے لیے کل جا ئیداد کے چھ کے بجا ئے سا ت حصے کر لیے جا ئیں گے ،ان سا ت حصوں میں سے تین خا و ند کو اور با قی چا ر بہنوں کو مل جائیں گے۔ (2) بہنو ں کی تعدا د تین ہے اور ان کے حصے چا ر ہیں، انہیں تقسیم کر نے کے لئے کسر کا سہا را لینا پڑے گا جو فرا ئض میں نہیں چلتا ، لہذا انہیں پو را پو را تقسیم کر نے کے لیے جا ئیدا د کے سا ت حصو ں کو ایک خا ص نسبت سے بڑھانا ہو گا جسے ورا ثت کی اصطلا ح میں تصحیح مسئلہ کہا جا تا ہے، تقسیم میں یکسا نیت کے لیے کل جائیداد کے اکیس حصے کر لیے جا ئیں گے، یعنی بہنو ں کی تعداد کے مسا وی عدد کو جا ئیداد کے بنیا دی حصو ں سے ضرب دی جا ئے گی ،اب تین ضرب سات برابر اکیس حصے بن گئے ،ان میں تین ضرب تین برابر نو حصے خاوند کے لئے اور چار ضرب تین برابر بارہ حصے تین بہنو ں کے لیے اب وہ 12 حصوں سے چا ر چا ر حصوں کی ما لک ہو ں گی۔ وا ضح رہے کہ جا ئیداد کی تفصیلی تقسیم محکمہ ما ل یعنی پٹوا ری وغیرہ کے ذمے ہیں۔ ورا ثت کے فتو ی میں صرف حصو ں کا تعین کیا جا تا ہے ،تقسیم کا عمل ہما رے ذمے نہیں ہے۔ واللہ اعلم با لصواب سوال۔لا لہ مو سیٰ سے بو اسطہ ذیشا ن خریداری نمبر 5695،قاضی محمد خاں کا ایک سوال اہل حدیث مجر یہ 5ستمبر 2003ءشما ر ہ نمبر 36میں شائع ہوا تھا کہ میر ی بیو ی فو ت ہو گئی ہے، اس کے نہ والدین زندہ ہیں اور نہ ہی اس کی کو ئی اولا د ہے، صر ف اس کا خا و ند اور تین حقیقی بہنیں زندہ ہیں، اس کی جا ئیدا د کیسے تقسیم ہو گی ،ہم نے اس کے جوا ب میں لکھا تھا کہ صورت مسئولہ کلالہ کی ایک صورت ہے ،چو نکہ اولا د نہیں ،اس لیے خاوند کو اس کی منقو لہ اور غیر منقو لہ جا ئیداد سے نصف ملے گا اور تین حقیقی بہنو ں کو کل جا ئیداد سے 3/2دیا |