Maktaba Wahhabi

299 - 495
مقا بلہ میں دو گنا حصہ ملے گا ۔ارشا د با ر ی تعا لیٰ ہے : اللہ تعالیٰ تمہیں تمہا ری اولاد کے متعلق حکم دیتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیو ں کے حصے کے برا بر ہے۔ (4/النسا ء :11) مذکو رہ تصریحا ت کے مطا بق متو فی کی کل جا ئیدا د کے 144 حصے کر دئیے جا ئیں، ان میں سے 18حصص بیو گا ن کے لیے جو 9۔9 حصے فی بیو ہ کے حساب سے تقسیم ہو ں گے، 84حصے لڑکو ں کے لیے جو 14۔14حصص فی لڑکا کے حسا ب سے تقسیم ہو ں گے۔ اسی طرح 42حصے لڑکیوں کے لیے جو 7،حصص فی لڑکی کے حسا ب سے تقسیم کر دیئے جا ئیں ۔(واللہ اعلم با لصوا ب) سوال۔فتح پو ر سے عبد السلا م بھٹی لکھتے ہیں کہ ایک آدمی مبلغ سا ڑ ھے سات لا کھ رو پیہ تر کہ چھو ڑ کر فو ت ہو ا ، پسما ند گا ن میں سے ایک بیٹی اور دوبیٹے ہیں، اس جا ئیداد کو کیسے تقسیم کیا جا ئے ؟ جوا ب ۔ قرآنی ضا بطہ میرا ث کے مطا بق بیٹے کو بیٹی سے دو گنا حصہ دیا جا ئے گا ،صورت مسئو لہ میں چو نکہ ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں، اس لیے کل جا ئیداد کے پانچ حصے کر لیے جا ئیں، پھر ایک حصہ بیٹی کے لیے اور دو حصے دو نوں بیٹیو ں کو دے دئیے جا ئیں، ارشاد باری تعا لیٰ ہے :" اللہ تعا لیٰ تمہیں او لا د کے متعلق حکم دیتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑ کیو ں کے حصے کے برابر ہے ۔ (4/النساء :11) اس آیت کی روشنی میں مذکو ہ جا ئیداد کو در ج ذیل نقشہ کے مطا بق تقسیم کر دیا جا ئے : لڑکا ۔2، لڑکا 2۔،لڑکی ۔1 چو نکہ جا ئیداد سا ڑھے سات لاکھ رو پیہ ہے اس لیے تین ،تین لا کھ دو نو ں لڑکو ں کے لیے اور ڈیڑھ لا کھ لڑکی کو مل جا ئے گا ۔ (واللہ اعلم با لصواب) سوال۔فیصل آباد سے محمد سردار لکھتے ہیں کہ ایک آدمی فو ت ہو ا پسماندگان میں سے بیو ہ ایک بیٹی اور دو بھا ئی مو جو د تھے، اس وقت کے مرو جہ قا نو ن کے مطابق میت کی زمین دوسرے ورثا ء کے بجا ئے صرف اس کی بیو ہ کے نا م منتقل ہو گئی، بیو ہ نے اپنے خاوند کی اس زمین کو اپنی بیٹی کے نا م انتقال کرا دیا ،جبکہ بیوہ کے دو حقیقی بھتیجے بھی موجود ہیں، جب بیو ہ فو ت ہو گئی تو اس کی بیٹی کے چچا زاد بھا ئیو ں نے اس کے خلا ف مو جو د ہ زمین پر دعو یٰ استقرار حق دا ئر کر دیا، اب دریا فت طلب مسئلہ یہ ہے کہ مذکو رہ لڑکی کو ملنے والی زمین سے اس کے چچا زا د بھا ئیو ں کو شرعاً کچھ مل سکتا ہے یا نہیں ؟ جوا ب۔بشرط صحت سوال واضح ہو کہ مذکو رہ زمین ابتدا ہی سے غلط تقسیم ہوئی ہے،تقسیم کی صحیح صورت یہ تھی کہ متو قی کی جائیداد کے آٹھ حصے کر لیے جاتے ایک حصہ بیو ہ کو، چا ر حصے لڑکی کو اور با قی حصے اس کے دو نو ں بھا ئیو ں کو دے دیئے جا تے ، لیکن صورت مسئولہ میں تمام جا ئیداد بیٹی کے نا م منتقل کر دی گئی ہے جو شر عاً و قا نو ناً جا ئز نہیں ہے ،وہ صرف اپنے با پ کی نصف جائیداد اور ما ں کو ملنے والے حصے سے نصف کی ما لکہ ہے ،با قی جا ئیدا د پر جو اس کا نا جا ئز قبضہ ہے، اسے و اگز ار کر نے کے لیے اس کے چچا زا د بھا ئی اس کے خلا ف دعو یٰ کر نے میں حق بجا نب ہیں، انہیں اپنے اپنے با پ ( جو میت کے حقیقی بھا ئی تھے )کا حصہ ملنا چاہیے، اور وہ بیو ہ کا 8/1اور بیٹی کا 2/1نکا ل کر با قی 8/3ہے ، یہا ں اس با ت کی وضا حت کر دینا بھی ضروری ہے کہ بیو ہ کے فوت ہو جا نے کے بعد
Flag Counter