اس لئے مرحوم کے بڑے صاحبزدگان جو برسر روزگار ہوں، شرعا واخلاقاً اس بات کے پابند ہیں کہ اپنی و الدہ کے فرمان کی بجا آوری کرتے ہوئے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی شادی کا بندوبست کریں۔ (واللہ اعلم) سوال ۔علی پو ر سے محمد اکر م پو چھتے ہیں کہ ہم تین بھا ئیوں نے والد کے سا تھ مل کر ایک قطعہ زمین خر ید ا تھا۔ ہما را چو تھا بھائی عرصہ درا ز سے بالکل الگ تھلگ رہتا ہے اور اس نے مذکو رہ زمین کی خریدا ری کے وقت کو ئی پیسہ پا ئی بھی نہیں دیا ۔اب والد کی وفا ت کے بعد اس قطعہ زمین میں شرعی طو ر پر اس کا حصہ بنتا ہے یا نہیں ،نیز ہما ری دو بہنو ں اور وا لد ہ کا حصہ بھی بتا دیں ؟ جواب۔با پ کے پا س رہنے والی اولا د کی کما ئی با پ کی شما ر ہو تی ہے الایہ کہ اولا د کا حق ملکیت تسلیم کر لیا جا ئے۔ صورت مسئو لہ میں معلو م ہو تا ہے کہ قطعہ زمین خرید تے وقت لڑکے کے اپنے با پ کے سا تھ شراکت کے طور پر حصہ دار بنے ہیں یعنی ان کا الگ حق ملکیت تسلیم کر لیا گیا ہے ،ایسی صورت حا ل کے پیش نظر با پ کو اگر ذاتی ضرورت ہو تو زمین اپنے لیے رکھ سکتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے "تو اور تیرا ما ل تیرے با پ کے لیے ہے ۔‘‘(نسا ئی) لیکن با پ کی طرف سے اس قسم کا اظہا ر نہیں ہو ا اس لیے الگ تھلگ رہنے وا لے بھا ئی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ مذکو رہ حدیث کی آڑ لے کر پو رے قطعہ زمین سے اپنا حق لینے کا دعویٰ کر ے، وہ صرف اتنے حصے میں شر یک ہو گا جو با پ کا بطو ر شر یک کے لیے ہے۔ مثلاً اگر زمین خریدتے وقت با پ کا چو تھا حصہ تھا تو اس کا وہ بیٹا جو زمین خریدنے میں شریک نہیں ہوا صرف چوتھا ئی حصہ میں دوسرے ورثا ء کے ساتھ شریک ہو گا ۔اب با پ کی وفا ت کے وقت پسما ند گا ن سے اس کی بیو ی دوبیٹیاں اور چا ر بیٹے بقید حیا ت ہیں اس لیے با پ کی کل جا ئیداد سے بیوہ کو 8/1بیٹے اور بیٹیا ں اس طرح تقسیم کر یں کہ بیٹے کو بیٹی سے دو گنا ملے۔ سہو لت کے پیش نظر جا ئیداد کے 80حصے کر لیے جا ئیں، ان میں آٹھوا ں یعنی 10حصے بیو ی کو اور با قی 70حصے اس طرح تقسیم کئے جا ئیں کہ چودہ حصے فی لڑکا اور سا ت حصے فی لڑ کی ادا کر دئیے جا ئیں، صورت نقشہ یہ ہے ۔ میت /80۔ بیوی 10۔لڑکا 14۔لڑکا 14۔لڑکا 14۔لڑکا ۔14۔لڑکی 7۔ لڑکی 7۔ سوال ۔ڈجکو ٹ سے عبد الرحمن لکھتے ہیں کہ ایک شخص کی دو بیویا ں ہیں اور دو نو ں صا حب اولا د ہیں۔ ایک بیو ی کے بطن سے پا نچ لڑکے اور چھ لڑ کیا ں ہیں جبکہ دوسر ی بیو ی سے ایک لڑکا ہو ا پیدا ہے، مذکو رہ آدمی فوت ہو چکا ہے، اس کی کل جا ئیدا د ایک مکان، ایک دکا ن اور پا نچ ایکٹر زرعی زمین ہے ،اس کی مذکو رہ جا ئیداد پسما ند گا ن میں کیسے تقسیم ہو گی؟ جو اب ۔صورت مسئو لہ میں متو فی کے ورثا ء دو بیو گا ن، چھ لڑ کے اور چھ لڑ کیا ں ہیں ، قرآن مجید کے بیا ن کر دہ ضا بطہ میرا ث کے مطا بق اولا د کی مو جو د گی میں بیو ہ یا بیو گا ن کو جا ئیداد سے آٹھوا ں حصہ ملتا ہے، ارشا د با ری تعالیٰ ہے :" کہ اگر تمہا ری اولا د ہو تو ان (بیو یو ں ) کو تمہا ری مترو کہ جا ئیداد سے آٹھو اں حصہ ملے گا ۔(4/النسا ء :12) بیو گا ن کو آٹھو اں حصہ دینے کے بعد با قی 8/7متو فی کی اولا د کے لیے ہے، اسے با یں طور پرتقسیم کیا جا ئے گا : لڑکے کو لڑ کی کے |