Maktaba Wahhabi

297 - 495
اس لیے مقررہ حصہ لینے والوں کے بعد بہن بھائیوں کو اسی نسبت سے دیا جائے گا۔ سوال۔ٹنڈو آدم سے شیخ مصفیٰ لکھتے ہیں کہ ہمارے والد محترم عرصہ ایک سال سے فوت ہوچکے ہیں۔پسماندگان میں ہماری والدہ پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں ترکہ کیسے تقسیم ہوگا۔نیز والد محترم نے اپنی زندگی میں چار بیٹیوں اور دو بیٹیوں کی شادی کردی تھی۔اب کیا تقسیم جائیداد سے پہلے پہلے بیٹے اور بیٹی کی شادی پر ا ٹھنے والے اخراجات منہا کئے جاسکتے ہیں یا کل جائیداد کو ورثاء میں تقسیم کرنا ہوگا؟ جواب۔قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق قانون وراثت فوت ہونے والے کے ہر قسم کے اموال واملاک پر جاری ہوتا ہے۔اس کا ترکہ منقولہ ہو یا غیر منقولہ، زرعی ہو یا صنعتی، الغرض ہر قسم کی جائیداد ورثاء میں تقسیم ہوگی۔البتہ تقسیم سے پہلے میت کے کفن ودفن پر اٹھنے والے اخراجات جائیداد سے منہا کئے جاسکتے ہیں۔ اگر میت کے ذمے قرض ہے تو اسے بھی اس جائیداد سے ادا کیا جائےگا۔پھر وصیت پوری کی جائےگی جو کل مال کے 3/1 حصہ کی حد تک ہوسکتی ہے۔اس کے بعد ترکہ تقسیم ہوگا ۔صورت مسئولہ میں والدہ یعنی مرحوم کی بیوہ کو آٹھواں حصہ دے کر باقی سات حصے اولاد میں تقسیم ہوں گے۔ آسانی کے لئے کل جائیدا د کے 104 حصے کرلیے جائیں، بیوہ کو 13 حصے دے کر باقی 91 حصے اس طرح تقسیم کئے جائیں کہ بیٹے کو بیٹی سے دو گنا حصہ ملے، یعنی ہر ایک بیٹے کو 14 حصے اور ہر ایک بیٹی کو 7 حصے دیئے جائیں۔ صورت مسئولہ : بیوہ 5 بیٹے 3 بیٹیاں ۔۔۔(بیوہ :13 حصے) (5 بیٹے :70 حصے ۔فی بیٹا :14حصے ) (3 بیٹیاں :21 حصے ۔فی بیٹی :7 حصے) مرحوم نے جن بچوں او ربچیوں کی شادیاں کی ہیں، ان پر جو مال خرچ ہوا ہے وہ ان کا مقدر تھا۔یہ دوسرے بچوں کی شادی کے لئے ترکہ سے خرچہ وغیرہ منہا کرنے کا پیش خیمہ نہیں ہوسکتا۔اس لئے قرض کی ادائیگی اور وصیت کے اجراء کے بعد جو ترکہ باقی ہے اس پر ضابطہ وراثت جاری ہوگا۔جس کی اوپر تفصیل بتادی گئی ہے۔البتہ باپ کی جائیداد سے حصہ لینے والے برسرروزگار لڑکے اس بات کے پابند ہے کہ وہ اپنی والدہ کے کہنے پر بیٹے اور بیٹی کی شادی پر اٹھنے والےاخراجات کا بندوبست کریں۔مرحوم کی جائیداد سے کسی مقدار کا حصہ کم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ والدہ کو اختیار ہے کہ جائیداد تقسیم ہوجانے کے بعد اپنے لڑکوں کو حکماً کہے کہ وہ اپنے چھوٹے بھائی اور بہن کی شادی کے انتظامات کریں۔ اگر بڑے لڑکے ماں کے اس حکم سے سرعدولی کرتے ہیں تو اللہ کے ہاں سنگین جرم کاارتکاب کرتے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:'' اللہ تعالیٰ نے تم پر ماؤں کی نافرمانی کو حرام ٹھہرایا ہے۔''(صحیح بخاری :کتاب الادب) قرآن پاک میں ایک واضح ارشاد ملتا ہے کہ اگرچہ اولاد کو ماں اور باپ دونوں کی خدمت کرناچاہیے۔لیکن ماں کا حق اس بنیاد پر زیادہ ہے کہ وہ اولاد کے لئے زیادہ تکلیفیں اٹھاتی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا کہ والدین میں سے کس کا حق خدمت مجھ پر زیادہ ہے ؟فرمایا:''تیری ماں کا۔''تین دفعہ پوچھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جواب دیا۔اس نے چوتھی دفعہ پوچھا کہ اس کے بعد کون ؟فرمایا:'' تیرا باپ''(صحیح بخاری کتاب الادب)
Flag Counter