سوال۔لیاقت پور سے ضیاء الحق بن محمدسرور سلفی لکھتے ہیں کہ ایک عورت جو بیوہ ہے اس کی صرف ایک لڑکی ہے۔اور اس کے مرحو م خاوند کی دوسری بیوی کی اولاد دو لڑکے اور ایک لڑکی زندہ ہیں۔بیوہ کے فوت ہونے کے بعد اس کی لڑکی وارث ہوگی یا مرحوم خاوند کی دوسری بیوی سے پیدا ہونے والی اولاد بھی وارث بنے گی؟ جواب۔بیوہ کی وفات کے بعد صرف اس کی لڑکی وارث بنے گی ۔سوکن کی اولاد اس کی حق دار نہیں ہوگی کیونکہ متوفیہ سے ان کا کوئی رشتہ نہیں ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:''جو مال ماں،باپ اور قریبی رشتہ دار چھوڑ مریں تھوڑا ہو یا زیادہ اس میں مردوں کابھی حصہ ہے اور عورتوں کا بھی۔''(4النساء :7) اس لڑکی کو نصف بحیثیت ذوی الفروض ملے گا اور باقی نصف بھی اس پر واپس کردیا جائے گا۔کیونکہ اور کوئی حقدار موجود نہیں ہے۔سوتیلے بہن بھائیوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔واللہ اعلم بالصواب سوال۔ ایک سائلہ بذریعہ ای میل سوال کرتی ہیں کہ میری بہن نے مجھے کچھ رقم دو بیٹیوں کی شادی کے لئے دی تھی۔اب وہ فوت ہوچکی ہے۔اس کی ساس کا مطالبہ ہے کہ وہ رقم ہمارے حوالے کی جائے، جبکہ مرحومہ کی دونوں بیٹیاں میرے پاس ہیں،کیا بہن کی جائیداد سے ساس کو حصہ ملتا ہے یا نہیں ،اگر نہیں تو میرے پا س جو امانت ہے، اسے کیا کروں ،وراثت کے طور پر تقسیم کردوں یا بیٹیوں کی شادی پر لگادوں؟ جواب۔صورت مسئولہ میں دی گئی رقم کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں: 1۔ وہ رقم بطور وصیت ہو ، یعنی مرحومہ نے وصیت کے طور پر رقم اپنی بہن کو دی، لیکن یہ اس لئے ناجائز ہے کہ وصیت ایسے شخص کے لیے کی جاسکتی ہے جوشرعی طور پر جائیداد کا وارث نہ بن سکتا ہو۔بیٹیاں چونکہ اپنی والدہ کی متروکہ جائیداد سے حصہ پاتی ہیں اس لئے ان کے حق میں وصیت ناجائز ہے۔ 2۔ وہ رقم بطورعطیہ کے ہو۔ یہ صورت بھی صحیح نہیں، کیونکہ جس شخص کو عطیہ دیا جائے اسے چاہیے کہ عطیہ دینے والے کی موت سے پہلے پہلے اس پر قبضہ کرے، مذکورہ صورت میں بیٹیوں کا ا س رقم پر قبضہ نہیں ہوا بلکہ وہ تو ان کی خالہ کے پاس ہے۔ 3۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مرحومہ نے بطور امانت کچھ رقم اپنی ہمشیرہ کے پاس رکھی تاکہ وہ بیٹیوں کی شادی پر اٹھنے والے اخراجات اس رقم سے پورے کرے لیکن وہ ان کی شادی سے پہلے فوت ہوچکی ہے ، اب یہ رقم اس کی متروکہ جائیداد شمار ہوگی اور اس میں ضابطہ میراث جاری ہوگا۔ ہمارے نزدیک یہ آخری صورت ہی ہے کہ اس رقم کو ورثاء میں تقسیم کردیا جائے۔ جس کی تفصیل درج ذیل ہے: (الف) دو تہائی اس کی دونوں بیٹیوں کا حق ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' اور اگر مرنے والے کی صرف لڑکیاں ہی ہوں اور وہ دو سے زیادہ ہوں تو انھیں متروکہ کا دو تہائی حصہ ملے گا۔''(4النساء :11) اس آیت کریمہ میں اگرچہ دو سے زائد لڑکیوں کا حکم بیان ہوا ہے تاہم دو لڑکیوں کا بھی یہی حکم ہے۔جیسا کہ حدیث میں ہے۔ حضرت سعد بن ربیع غزوہ ٔ احد میں شہید ہوگئے تو اس کی تمام جائیداد پر اس کے بھائی نے قبضہ کرلیا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں لڑکیوں کو ان کے چچا سے دو ثلث مال دلوایا۔(ترمذی :الفروض 2092) |