Maktaba Wahhabi

294 - 495
کاروبار میں شریک ہے تو علیحدگی کے وقت اس کا حصہ الگ کیا جاسکتاہے۔بطوروراثت والد کی جائیداد سے والد کی زندگی میں کسی قسم کے شرعی حصہ کابیٹا حقدا ر نہیں ہے۔(واللہ اعلم) سوال۔شاہدرہ سے محمد علی سوال کرتے ہیں کہ میرا یک بھائی جس کا لڑکا او ر دو لڑکیاں تھیں۔ میرے والد کی زندگی میں فوت ہوگیا، اس کے دوسال بعد ہمارے والد محترم بھی انتقال کر گئے۔ اب ہم دو بھائی اور چار بہنیں زندہ ہیں۔ ہم اپنے باپ کے ترکہ کو کیسے تقسیم کریں ۔کیا مرحوم بھائی کے بچے ہمارے باپ کی جائیداد میں شریک ہیں یا نہیں اگرہیں تو کس قدر؟ جواب۔واضح رہے کے اسلامی قانون وراثت کے مطابق دورکے رشتہ دار قریبی رشتے دا ر کی موجودگی میں محروم ہوتے ہیں۔اس قاعدہ کی رو سے بیٹیوں کی موجودگی میں پوتا محروم ہوتا ہے۔ ہاں اگر مرنے والا اپنے پوتے کے حق میں وصیت کرگیا ہوتو 3/1 کی حد تک وصیت کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ یا تمام بیٹے باہمی رضا مندی سے اسے کچھ دے سکتے ہیں۔ البتہ قانونی طور پر بیٹوں کی موجودگی میں پوتا حقدار نہیں ہوتا۔ لیکن مرحوم بھائی کی بیوی انہی کے رحم وکرم پر بیٹھی ہو تو بھا ئیوں کو چاہیے کہ وہ اپنے یتیم بھتیجوں کوکچھ نہ کچھ ضرور دیں۔جہاں تک جائیدادکی تقسیم کاتعلق ہے تو اس کا ضابطہ یہ ہے کہ لڑکے کو لڑکی کے مقابلہ میں دو گناہ حصہ دیا جائے۔صورت مسئولہ میں کل منقولہ اورغیر منقولہ جائیداد کے آٹھ حصےکرلیے جائیں دو دو حصے فی لڑکا اور ایک ایک حصہ فی لڑکی کے حساب سے جائیداد کو تقسیم کردیا جائے۔اگر مرحوم بھائی کی اولاد کو باہمی رضا مندی سے کچھ دیناچاہیں تو تقسیم جائیدادسے پہلے ان کاحصہ الگ کردیں۔اس کے بعد جائیدادتقسیم کریں۔تقسیم کی صورت حسب ذیل ہے: میت :8= بیٹا ۔2 بیٹا۔2 بیٹی 1۔بیٹی 1۔بیٹی 1۔بیٹی 1 سوال۔لاہورسے محمداشرف لکھتے ہیں کہ ایک شخص کی وفات کے وقت اس کی بیوی، دو بیٹیاں، تین بیٹے اور ایک یتیم پوتا زندہ تھے۔ایک بیتے نے تحصیل دار کے سامنے بیان دیا کہ مرحوم کے صرف تین بیٹے اور ایک یتیم پوتا زندہ ہیں، اس طرح بیوہ اور اس کی دونوں بیٹیوں کو محروم کرکے مرحوم کی جائیداد چار حصوں میں مساویانہ تقسیم ہوگئی۔ اب سوال یہ ہے کہ یتیم پوتا بیٹیوں کی موجودگی میں اپنے دادا کی وراثت لے سکتا ہے، جبکہ پوتے کا موقف یہ ہے کہ مجھے اپنے دادا کی طرف سے خیر ات ملی ہے۔ جواب۔صورت مسئولہ میں شرعی تقسیم یہ ہے کہ بیوہ کو آٹھواں حصہ دینے کے بعد باقی جائیداد حقیقی اولاد میں اس طرح تقسیم کی جائے گی۔بیٹے کو بیٹی کے مقابلے میں دو گنا حصہ ملے۔ جس کی صورت یہ ہے کہ کل جائیداد کے 64 حصے کئے جائیں گے۔ بیوہ کو آٹھ حصے دینے کے بعد باقی 56 حصے لڑکوں اور لڑکیو ں میں 1:2 کی نسبت سے تقسیم کردیئے جائیں۔یعنی لڑکوں کو چودہ چودہ اور لڑکیوں کو سات سات حصے مل جائیں۔اولاد کی موجودگی میں پوتا محروم رہتا ہے۔ اس کی حوصلہ افزائی دوطرح سے کی جاسکتی تھی۔ 1۔مرحوم وصیت کے ذریعے اسے کچھ دے سکتا تھا۔بشرطیکہ وصیت 3/1 سے زائد نہ ہوتی۔ 2۔ورثاء اپنی مرضی سے اسے کچھ نہ کچھ دے دیں لیکن وہ اس کے پابند نہیں ہیں۔ اب درج بالا سوال سے معلو م ہوتا ہے کہ جائیداد کی تقسیم شریعت کے مطابق نہیں ہوئی۔ ورثاء کو چاہیے کہ جس کسی نے دوسرے کا حق دانستہ یا نادانستہ طور پر دبایا ہے وہ حق دار کو اس کا حصہ واپس کردے۔ وگرنہ قیامت کے دن اس کے متعلق باز پرس ہوگی۔اس سلسلہ میں یتیم پوتے کا موقف صحیح نہیں ہے۔(واللہ اعلم)
Flag Counter