Maktaba Wahhabi

293 - 495
اس کی تائید نہیں ہوتی۔ 2۔مذہب اہل قرابت: ان کے نزدیک قرب اور بعد کا لحاظ رکھا جائے۔ جو میت کے زیادہ قریب ہوگا وہ حقدار ہو گا۔ جیسا کہ عصبات میں ہوتا ہے۔نیز مذکرمؤنث کے مقابلے میں دو گنا حصہ دیا جائے گا۔احناف اسی کے قائل ہیں ۔ 3۔ اہل تنذیل: ان کے نزدیک ذوی الارحام خود وارث نہیں ہیں ،بلکہ اپنے اصل وارث کی وجہ سے انہیں حصہ ملتا ہے۔مثلاً نواسی کو بیٹی کے قائم مقام کرکے اس کا حصہ دیا جاتا ہے۔جمہور اسی کے قائل ہیں۔ صورت مسئولہ میں نواسے اور نواسی بیٹی کی وجہ سے وارث ہیں۔تو گویا میت اور ذوی الارحام کے درمیان عورت کاواسطہ ہو اور عورت کا واسطہ برابری کو چاہتا ہے۔جیسا کہ مادری بھائی بہنوں میں ہوتا ہے،اس لئے ترکہ تین حصوں میں تقسیم کرکے دو حصے دونوں نواسوں کو ایک حصہ نواسی کو دیا جائے۔بھاوج کا اس میں کوئی حصہ نہیں وہ ترکہ سے محروم ہے۔ (واللہ اعلم) سوال۔ محمد اقبال بذریعہ ای میل سوال کرتے ہیں کہ میں ا یک بیٹے کو علیحدہ کرناچاہتا ہوں لیکن وہ علیحدہ ہونے سے پہلے میری جائیداد سے اپنا شرعی حصہ مانگتا ہے ،میں بھی اسے حصہ دینے پر رضا مند ہوں، میرے وارث یہ ہیں: میں خود ،میری بیوی، پانچ بچے اور دو بیٹیاں، اس کے متعلق راہنمائی درکا ر ہے۔واضح رہے کہ ایک بچے کی شادی کرنا اور کچھ قرضے کی ادائیگی میرے ذمے ہے۔ جواب۔شریعت اسلامیہ کی انتقال ملکیت کی دو صورتیں ہیں: (الف) اختیاری۔(ب) غیر اختیاری۔ اختیاری طور پر انتقال ملکیت اگر بلامعاوضہ ہے تو ایسا زندگی میں ہبہ اور زندگی کے بعد وصیت کی صورت میں ممکن ہے اور اگرانتقال ملکیت بالمعاوضہ ہے تو اسے بیع وغیرہ کا نام دیا جاتا ہے۔انتقال ملکیت کی دوسری صورت میں جو غیر اختیاری ہے وہ ملکیت کو خود بخود مورث کی طرف سے ورثاء کی جانب منتقل کردیتی ہے۔ جس میں مورث کے ارادہ نیت یا اختیار کو کوئی دخل نہیں ہوتا ، اسی قسم کے انتقال ملکیت کو''وراثت'' کہا جاتا ہے۔صورت مسئولہ میں''شرعی حصہ'' لینےدینے پر اظہار رضا مندی انتقال ملکیت کی یہ آخری صورت معلوم ہوتی ہے۔لیکن سائل کا منشا یہ ہے کہ میں اس غیراختیاری انتقال ملکیت کو اپنے ارادہ اختیار سے اپنے ورثاء کی طرف منتقل کردوں۔ لیکن ایسا کرنا وراثت کے طور پر جائز نہیں ہے۔ کیونکہ انتقال ملکیت کی اس آخری صورت میں وراثت کا استحقاق اس وقت پیدا ہوتا ہے جب مور ث کی موت حقیقتاً یا حکما ً واقع ہوچکی ہو۔اپنی زندگی میں جیتے جی کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی جائیداد کوبطور وراثت اپنے ورثاء کی طرف منتقل کرے کیونکہ ایسا کرنے سےورثاء پر زیادتی کاامکان باقی رہتا ہے جوشرعاً جائز نہیں ہے، جیسا کہ تقسیم جائیداد کے بعد اگر کوئی وارث اس کی زندگی میں فوت ہوگیا تو اسے جو حصہ دیا گیا تھا وہ اس کاوارث نہ تھا کیونکہ وراثت میں مورث کی موت کے ساتھ ہی وارث کی حیات کا تعین بھی ضروری ہے۔اس بنا پر بیٹے کا والد سے اس کی زندگی میں اپنے شرعی حصے کا مطالبہ کرنادرست نہیں ہے۔البتہ ہبہ یا عطیہ کی صورت میں ایسا ہوسکتا ہے۔لیکن اسے شرعی حصہ قرارنہیں دیا جائے گا بلکہ یہ تو سراسر والد کی مرضی پر موقوف ہے۔ نیز ہبہ میں دوسری اولاد خواہ نرینہ ہو یا مادینہ انہیں مساویانہ طور پر شامل کرناہوگا۔وہ بیٹا اگر والد کے ساتھ
Flag Counter