پہلے وفات پاجاتا ہے تو ہبہ موہوب لہ یعنی جس کے لئے ہبہ کیا گیا ہے اسے ملنا چاہیے ۔انہوں نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:’’ باب اذا وهب او وعدتم مات قبل ان تصل اليه ‘‘ اسی طرح حضرت قاضی شریح کے متعلق بھی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیا ہے کہ انہوں نے اپنے ورثاء کو کہا تھا'' کہ میں جو اپنی بیوی فزاریہ نامی کو دے چکا ہوں اسے واپس نہ لیا جائے۔''(صحیح بخاری:کتاب الوصایا) صورت مسئولہ میں وصیت کی شکل نہیں بلکہ ہبہ کی صورت ہے جو متوفی نے اپنی زندگی میں بقائمی ہوش وحواس اپنے بھائی کو دیا ہے پھر قبل از موت اس کی تاکید بھی کردی، اس لئے اسے نافذ ہوناچاہیے۔ شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ورثاء کو اس کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ بطیب خاطر اسے قبول کرنا چاہیے،پھروہ انھیں جاتے وقت اس کے نفاذ کی تاکید بھی کرگیا ہے۔اس بنا پر اس مکان کو باہمی جھگڑے کا باعث بنانا درست نہیں ہے۔البتہ جو حضرات دوسرے ورثاء کو محروم کرنے کی نیت سے اپنی جائیداد زندگی میں ہی کسی ایک وارث کے نام لگوا جاتے ہیں ایساکرناشرعاًجائز نہیں ہے۔ اگر کوئی ایسا کرجائے تو اس کی اصلاح کرتے ہوئے شرعی ورثاء کو ان کا حق دے دینا چاہیے۔ هذا ما عندي واللّٰه اعلم بالصواب سوال۔لاہور سے عبدالمجید خاں دریافت کرتے ہیں کہ ا یک شخص فوت ہوا اس کے دو نواسے اور ایک نواسی اور ایک بہو بقید حیات ہیں۔مرحوم کا ترکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں کیسے تقسیم ہوگا؟ جواب۔میت کے قرابت داروں کو تین درجوں میں تقسیم کیا جاتاہے،سب سے پہلے ذوی الفروض کا درجہ ہے۔ان سے مراد وہ رشتہ دار ہیں جن کا حصہ مقرر ہے۔ان کے بعد عصبات ہیں، ان سے مراد میت کے وہ اقارب ہیں جو ذوی الفروض کے دینے کے بعدبقیہ ترکہ کے مستحق ہوتے ہیں۔اوراگر مقررہ حصہ لینے والے نہ ہوں تو وہ کل ترکہ لینے کے حق دار ہوتے ہیں۔ذوی الفروض اور عصبات کے بعد تیسرا درجہ ذوی الارحام کا ہے۔ ان سے مراد وہ تمام خونی رشتہ دار ہیں جو نہ ذوی الفروض ہوں، نہ عصبات ، صورت مسئولہ میں دونوں نواسوں اور ایک نواسی کاتعلق اس آخری درجے ذوی الارحام سے ہے۔ان کی توریث کے متعلق متقدمین علماء میں اختلاف ہے۔جمہور صحابہ ، مثلا حضرت عمر ،حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت عبیدہ بن الجراح ، حضرت معاذ بن جبل ، حضرت ابو درداء ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم ذوی الارحام کی توریث کے قائل ہیں۔احناف اور حنابلہ کا بھی یہی موقف ہے۔جبکہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ذوی الارحام کی میراث کے قائل نہیں ہیں۔مالکیہ اور شوافع کا بھی یہی رجحان ہے۔ان کےنزدیک اصحاب فرائض اور عصبات کے نہ ہونے کی صورت میں میت کا ترکہ بیت المال میں رکھا جائے۔بشرطیکہ بیت المال منتظم ہو۔اگر بیت المال کاباضابطہ نظام نہ ہوتو ذوی الفروض یاعصبات کے نہ ہونے کی صورت میں ذوی الارحام حق دار ہوں گے۔ بہرحال انسب نقطہ نظر یہی ہے کہ ذوی الفروض اورعصبات کے بعد ذوی الارحام ترکہ کے حق دار ہیں۔ قرآن وحدیث میں ا س موقف کی تائید میں متعدد اشارے ملتے ہیں۔پھر ذوی الارحام کی توریث کے طریقہ میں بھی اختلاف ہے عام طور پر اس میں تین مذہب ہیں۔ 1۔مذہب اہل رحم: ان کے نزدیک ترکہ پانے کا سبب اہل رحم ہوناہے اور اس میں سب برابر ہیں۔ اس لئے جو زندہ موجود ہوں ان کے درمیان ترکہ برابر تقسیم کردیا جائے۔ خواہ مرد ہو یا عورت، قریبی ہو یادور کا رشتہ دار، یہ مذہب متروک ہے کیونکہ کتاب وسنت سے |