Maktaba Wahhabi

291 - 495
مذکورہ بالا شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے بھانجی کے حق میں وصیت تو کی جاسکتی ہے لیکن وراثت کے طور پر اسے کچھ نہیں ملے گا۔(واللہ اعلم بالصواب) سوال۔ایک آدمی کی دو بیویاں ہیں اور دونوں ہی صاحب اولاد ہیں۔ پہلی بیوی کے بطن سے پانچ لڑکے اور چھ لڑکیاں ہیں۔جبکہ دوسری سے صرف ایک لڑکا پیدا ہوا ہے۔دوسری بیوی عرصہ ہوا فوت ہوچکی ہے۔اب مذکورہ شخص بھی فوت ہوگیاہے۔ اس کی جائیداد پسماندگان میں کیسے تقسیم ہوگی۔ کتاب وسنت کی روشنی میں فتویٰ دیں۔(السائل محمد شریف مظفر گڑھ) جواب۔واضح رہے کہ صورت مسئولہ میں مرحوم کے ورثاء ایک بیوہ، چھ لڑکے اور چھ لڑکیاں ہیں۔ قران مجید کے بیان کردہ ضابطہ میراث کے مطابق اولاد کی موجودگی میں بیوہ کو آٹھواں حصہ ملتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَ‌كْتُم ﴾ (النساء۱۲/۴) ‘‘اوراگراولادہوتوان(بیویوں) کاآٹھواں حصہ ہے۔اس جائیداد سے جوتم چھوڑ چکے ہو۔'' بیوہ کو آٹھواں حصہ دینے کے بعد جو باقی بچے اسے اولاد میں اس طرح تقسیم کردیا جائے کہ لڑکے کو لڑکی کے مقابلے میں دو گنا حصہ ملے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يُوصِيكُمُ اللّٰهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ‌ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ﴾ (النساء۴/۱۱) ''اللہ تعالیٰ تمھیں تمھاری اولادوں کے متعلق حکم دیتے ہیں کہ ایک لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ دیا جائے۔'' مذکورہ تصریحات کی روشنی میں متوفی کی جائیداد کے کل 144 حصے کیے جائیں ،ان میں سے 8/1 یعنی 18 حصص بیوہ کے لئے، باقی 126 حصص 1:2 کی نسبت سے 14 حصص فی لڑکا اور 7 حصص فی لڑکی تقسیم کردیئے جائیں ۔اس طرح لڑکوں کے کل حصے 84 اور لڑکیوں کے 42 حصے ہوں گے۔ هذا ما عندي واللّٰه اعلم بالصواب سوال۔ساہیوال سے الٰہی بخش لکھتے ہیں کہ میرے بھائی نے ایک رہائشی سکیم میں بذریعہ قرعہ اندازی میرے لئے پلاٹ آلاٹ کرایا ،پھر اس پر اپنی گرہ سے مکان تعمیر کیا اور بارہا اپنے دیگر رشتہ داروں کے سامنے کہا کہ یہ پلاٹ اور مکان میرے بھائی کے لئے ہے۔ وفات سے چنددن قبل بھی اس بات کودھرایا کہ میرا ترکہ بحصہ شرعی تقسیم کرلیا جائے لیکن مکان میں نے جسے دیا ہے ا س کے متعلق جھگڑا نہ کرنا ،اب دوسرے ورثاء اس مکان سے حصہ طلب کرتے ہیں کیا ان کا شرعی حصہ مکان سے بنتا ہے یا نہیں؟ جواب۔واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں خود مختار بنا کر بھیجا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو جیسے چاہے استعمال کرسکتاہے، مال وجائیداد بھی اللہ تعالی کی ایک نعمت ہے اس میں بھی جائز طور پر اسے تصرف کرنے کا پورا حق ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:'' کہ ہرمال دار اپنے مال میں تصرف کرنے کا زیادہ حق رکھتا ہے،وہ جیسے چاہے استعمال کرے۔''(بیہقی :6/ 178) صورت مسئولہ میں مرحوم نے اپنے بھائی کے نام پلاٹ آلاٹ کرایا ،پھر اس پر تعمیر بھی کرائی ،یہ ہبہ کی ایک شکل ہے جس کا اسے شرعاً حق ہے ،پھر وفات سے پہلے اپنے ورثاء کو اس کی تاکید بھی کردی تاکہ وفات کے بعد کسی قسم کے جھگڑے کی کوئی صورت پیدا نہ ہو۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کارجحان بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔اگر کوئی کسی کو ہبہ کرتا ہے یا اس کا وعدہ کرتا ہے لیکن عملی شکل دینے سے
Flag Counter