دودھ پلا دو، اس طرح وہ تمہارا رضاعی بیٹا بن جائے گا۔''(صحیح مسلم : کتاب الرضاع) اس لئے بیوہ کو چاہیے کہ لے پالک جوان ہوجائے تو اس سے پردہ کرے، باقی رہا اس کے نام اپنا ذاتی مکان لگوادینے کا مسئلہ تو اس کے متعلق عرض ہے کہ اگر اپنے بھائیوں کو محروم کرنے کی نیت سے ایساکیا گیا ہے تو شرعاً اس کی اجازت نہیں ہے۔کیونکہ حدیث میں ہے:'' کہ جو کوئی اپنے وارث کو اس کے شرعی حصے سے محروم کرے گا،اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے جنت سے ملنے والے حصے سے محروم کردیں گے۔''(بیہقی فی شعب الایمان) قرائن سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس بیوہ نے لے پالک کے نام اپناذاتی مکان اس بنا پر لگوادیا ہے کہ اس کے بھائیوں نے والد کی جائیداد سے اسے کوئی حصہ نہیں دیا ہے۔بھائیوں کا اسے باپ کی جائیداد سے محروم کرنا اگرچہ بہت بڑا جرم ہے لیکن اس آڑ میں اسے اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اپنے بھائیوں کو اپنی جائیداد سے محروم کردے۔کسی کی دنیابنانے کے لئے اپنی آخرت خراب کرنا کوئی عقل مندی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ حدیث میں ہے ''کہ ہر مال دار اپنے مال میں تصرف کرنے کازیادہ حق رکھتا ہے۔''(بیہقی :6/175) اس حدیث کے پیش نظر صورت مسئولہ میں بیوہ بحالت تندرستی اپنا مکان جسے چاہے دے سکتی ہے لیکن اس کےلئے شرط یہ ہے کہ جائز تصرف کرتے وقت کسی شرعی وارث کو اس حق وراثت سے محروم کرنا مقصود نہ ہو۔(واللہ اعلم بالصواب) سوال۔احمد پور سے رابعہ خاتون لکھتی ہیں کہ میری کوئی اولاد نہیں ہے، صرف خاوند اور بھائی بہنیں بقید حیات ہیں، میری جائیداد صرف ایک مکان ہے۔ میں نے ا پنی بھانجی کو بیٹی بنایا ہوا ہے جو میری خدمت بھی کرتی ہے۔ کیا میری جائیداد سے اس بھانجی کا کوئی حصہ بنتا ہے۔قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیں۔ جواب۔بہن بھائیوں کی موجودگی میں بھانجی شرعاً حقدار نہیں ہے۔وفات کے وقت اگر سوال میں ذکر کردہ رشتہ دار زندہ رہے تو مکان کے وارث ہوں گے ،تقسیم یوں ہوگی کہ خاوند کو نصف اور باقی نصف بہن بھائی اس طرح تقسیم کریں کہ بھائی کو بہن سے دو گنا حصہ ملے ۔سوال میں بہن بھائیوں کی تعداد ظاہر نہیں کی گئی اس لئے حصوں کا تعین نہیں ہوسکتا ۔بھانجی کووراثت کے طور پر کوئی حصہ نہیں ملے گا۔ چونکہ وہ خدمت گار ہے، اس لئے اس کے حق میں وصیت کی جاسکتی ہے۔جس کا ضابطہ حسب ذیل ہے۔ 1۔وصیت کی صورت میں3/1 سے زائد نہ ہو ، بہتر ہے کہ اس سے کم حصہ کی وصیت کی جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت میں ایک تہائی کو بہت زیادہ قراردیا ہے۔ 2۔وصیت شرعی وارث کے لئے نہ کی جائے، یعنی جن ورثاء کو بطور وراثت حصہ ملنا ہے ان کے لئے وصیت ناجائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر ارشاد فرمایا تھا:'' اللہ تعالی نے ہر وارث کو اس کا حق دے دیا ہے۔اب وارث کے لیے وصیت درست نہیں۔'' 3۔وصیت کسی ناجائز کام کے لئے نہ ہو اگر کسی ناجائز کام کے لئے وصیت کی یا کسی جائز وارث کے لئے وصیت کردی تو اسے نافذ العمل نہیں قراردیا جائے گا۔بلکہ ایسی ناجائز وصیت کی اصلاح کرنا ضروری ہے ۔ قرآن کریم میں اس کی وضاحت موجود ہے۔ |