میں کوئی ایسا رشتہ دار زندہ نہیں ہےجو ذوی الفروض، یعنی مقررہ حصہ لینے والوں سے ہو، اس صورت میں عصبہ تمام جائیداد کے وارث ہوتے ہیں۔بھتیجے اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ اپنی بہن کو عصبہ بغیرہ بناسکیں کیونکہ اس کے لئے تین شرائط کا ہونا ضروری ہے جو حسب ذیل ہیں: 1۔وہ مؤنث مقررہ حصہ لینے والی ہو، ذوی الارحام سے نہ ہو ،جیسا کہ حقیقی پھوپھی کوحقیقی چچا عصبہ نہیں بنائے گا۔کیونکہ پھوپھی مقررہ حصہ لینے والوں سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق ذوی الارحام سے ہے۔بیٹا بیٹی کو اور حقیقی یا پدری بھائی اپنی بہن کو عصبہ بنائے گا۔کیونکہ بیٹی اور بہن مقررہ حصہ لینے والوں سے ہیں۔ 2۔ مؤنث کو عصبہ بنانے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ مؤنث کے ساتھ درجہ میں مساوی ہو ،جیساکہ بیٹا میت کی پوتی کو عصبہ نہیں بنائےگا بلکہ وہ بیٹے کی موجودگی میں محروم ہوگی، اسی طرح حقیقی بھتیجا میت کی حقیقی بہن کو عصبہ نہیں بنائے گا کیونکہ وہ درجہ میں اس کے مساوی نہیں ہے۔اس صورت میں بھتیجا محروم ہوگا اور بہن کوحصہ ملے گا۔ 3۔ مؤنث کوعصبہ بنانے والا رشتہ کی مضبوطی اور قوت میں بھی مؤنث کے برابر ہو، یہی وجہ ہے کہ پدری بھائی میت کی حقیقی بہن کو عصبہ نہیں بنائےگا۔کیونکہ حقیقی بہن کا رشتہ پدری بھائی کے مقابلہ میں زیادہ قوی اورمضبوط ہے۔علمائے وراثت کا کہنا ہے کہ صر ف چار رشتہ دار ہی اپنی بہنوں کو عصبہ بناتے ہیں۔بیٹا ،پوتا ،حقیقی بھائی اور پدری بھائی، ان کے علاوہ کوئی رشتہ داری اپنی بہنوں کو عصبہ نہیں بنا سکیں گے۔بلکہ علماء کا یہ قول بھی بہت مشہور ہے کہ چار ورثاء اپنی بہنوں کو عصبہ نہیں بناسکیں گے۔چچا مطلق طور پرخواہ حقیقی ہو یا پدری ،چچا زاد بھائی حقیقی بھائی کا بیٹا اور پدری بھائی کا بیٹا، اس کی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ رشتہ داروں کی تمام بہنیں ذوی الارحام سے ہیں۔اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ صورت مسئولہ میں بھتیجے اپنی بہن کو عصبہ بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ، وہ دونوں ہی اپنے چچا کی جائیداد کے حقدار ہوں گے۔مرحوم کی بھتیجی وراثت سے محروم ہوگی۔(واللہ اعلم) سوال۔بھکر سے پروفیسر محمد مبشر لکھتے ہیں کہ ایک عورت جس کا خاوند فوت ہوچکا ہے اور اس کے ہاں کوئی اولاد بھی نہیں اس نے کسی لاوارث بچے کو لے کر پالا، اس عورت کاذاتی مکان ہے جو اس نے اپنی کمائی سے خریداتھا، وہ اس نے اپنے لاوارث لے پالک کے نام لگوادیا ہے، کیاشرعاً ایسا کرنا جائز ہے۔واضح رہے کہ عورت کے بھائیوں نے والد کی جائیداد میں سے اسے کوئی حصہ نہیں دیا ہے۔ جواب۔اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ لے پالک اولاد کو اپنی حقیقی اولاد کا درجہ دیا جائے۔کیونکہ اس مصنوعی رشتے کے رسمی تقدس پر بھروسہ کرکے جب حقیقی رشتہ داروں جیسا خلا ملا ہوتا ہے تو وہ برے نتائج پیدا کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ا س لئے شریعت اسلامیہ نے لے پالک کو حقیقی اولاد کی طرح سمجھنے کے تخیل کی بڑی سختی سےحوصلہ شکنی کی ہے۔سورت احزاب کی آیت نمبر 4۔5 میں اسی موضوع کو بیان کیا گیاہے۔اس کے علاوہ حدیث میں ہے کہ حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کی بیوی نے حضرت سالم کو اپنا منہ بولا بیٹا بنایا تھا ،جب اللہ تعالیٰ نے لے پالک کے متعلق ضابطہ نازل فرمایا کہ اسے حقیقی اولاد کا درجہ نہ دیا جائے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا :سالم کو میں نے اپنا بیٹا بنایا ہے، اب اس کے متعلق کیا حکم ہے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کہ تم اسے پانچ مرتبہ |