تین بیٹیوں کو کل جائیداد کا 3/2 حصہ ملے گا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:''اگر لڑکیاں دوسے زیادہ ہوں تو انہیں ترکہ کا دوتہائی حصہ ملے گا۔''(4/النساء :11) ان حقداروں کا حصہ دینے کے بعد اگر کچھ بچے تو چچا کی نرینہ اولاد کو دے دیا جائے۔ حدیث میں ہے:'' مقررہ حصہ لینے والوں کو ان کا حق دے دیا جائے۔اگر ان سے کچھ باقی رہے تو وہ میت کے قریبی تر رشتہ داروں کا ہے۔''(صحیح بخاری) سہولت کے پیش نظرکل جائیداد کے36حصے کرلیے جائیں ،ان میں سے 9 حصے خاوند کو 8'8 حصے تینوں بیٹیوں کو اور تین حصے چچا کی نرینہ اولاد کو دیئےجائیں۔ صورت مسئولہ یو ں ہوگی: میت/36= خاوند 9۔بیٹی 8۔بیٹی8۔چچا کی نرینہ اولاد 3۔ سوال۔وزیر آباد سے محمد علی دریافت کرتے ہیں کہ ایک شخص کی بیوی تین لڑکے اور پانچ لڑکیاں ہیں۔ا س نے ا پنی زندگی میں دو لڑکوں اور بیوی کو اپنی جائیداد کا وارث ٹھہرادیا اور باقی ورثاء کو محروم رکھا، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا اس شخص کے مرنے کے بعد مرحوم ورثاء اپنا حصہ طلب کرسکتے ہیں یا اس کے محروم کرنے سے وہ محروم ہی رہیں گے۔نیز مندرجہ بالا ورثاء کے درمیان جائیداد کی شرعی تقسیم کیا ہوگی؟ جواب۔اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ورثاء میں جائیداد تقسیم کرنے کے متعلق ایک تفصیلی ضابطہ بیان فرمایا ہے۔جس میں کسی کو ترمیم واضافہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ کسی انسان کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے جسے چاہے وارث بنادے اورجسے چاہے محروم ٹھہرا دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کے متعلق فرمایا ہے:''جو شخص اپنے وارث کو وراثت سے محروم کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن جنت کی وراثت سے محروم کردیں گے۔''(ابن ماجہ : کتاب الوصایا) مذکورہ شخص نے اپنی زندگی میں تقسیم جائیداد کا جو طریق کار اپنا یا ہے وہ بالکل غلط اورخلاف شرع ہے۔ اس کے محروم کردینے سے کوئی شرعی وارث محروم نہیں ہوگا۔بلکہ وہ مذکورہ بالا وعید کاسزاوار ہوگا۔ا س بنا پر جن ورثاء کو محروم ٹھہرایا گیا ہے،وہ باقاعدہ اس کی جائیداد کے حق دار ہیں، بشرطیکہ اس کی موت کے وقت وہ زندہ موجود ہوں اور انھیں اپنی وراثت کے مطالبے کا پورا پورا حق ہے۔ ورثاء کے حصص بایں طور ہوں گے کہ بیوی کو کل جائیداد کا8/1 دینے کے بعد باقی جائیداد کے حق دار اس کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں۔وہ آپس میں باقی 8/7 جائیداد اس طرح تقسیم کریں کہ ایک لڑکے کو لڑکی کے مقابلے میں دو گنا حصہ ملے ۔سہولت کے پیش نظر اس کی منقولہ وغیر منقولہ جائیداد کے 88 حصے کرلیے جائیں۔جن میں 8/1 یعنی گیارہ حصے بیوی کو دے دیئے جائیں اور باقی 77 حصے اولاد میں1:2 کی نسبت سے تقسیم کردیئے جائیں ایک لڑکے کو 14 حصے اور لڑکی کو 7 حصے دیے جائیں ۔اس طرح لڑکوں کے کل حصص 42 اور لڑکیوں کے 35 حصے ہوں گے۔(واللہ اعلم بالصواب) سوال۔منکیرہ سے پروفیسر سعید مجتبیٰ لکھتے ہیں کہ ایک شخص فو ت ہوگیا، پسماندگان میں سے صرف دو بھتیجے اور ایک بھتیجی بقید حیات(یہ آپس میں حقیقی بہن بھائی ہیں)مرحو م کی جائیداد تینوں میں تقسیم ہوگی یا صرف بھتیجے حق دار ہوں گے؟ جواب۔واضح ہو کہ صورت مسئولہ میں مرحوم کی جائیداد کے حقدار صرف بھتیجے ہوں گے۔بھتیجی کو کچھ نہیں ملے گا ،میت کے ورثاء |