تعالیٰ ہے:''ہم قیامت کے دن انصاف پر مبنی ترازو قائم کریں گے اس بنا پر کسی کی کچھ بھی حق تلفی نہ ہوگی اور اگرکسی کا رائی کے دانے کے برابر بھی ظلم ہوا تو وہ بھی سامنے لایا جائے گا اور حساب لینے کے لئے ہم کافی ہیں۔''(21/الانبیاء :47) یہ دنیا کامال ومتاع دنیا میں رہ جائے گا۔ اس کی خاطر اپنی آخرت کو برباد نہ کیا جائے۔هذا ما عندي واللّٰه اعلم بالصواب. سوال۔محمد مصطفیٰ بذریعہ ای میل لکھتے ہیں کہ ایک آدمی کے د و لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں۔اس نے اپنی ایک لڑکی کے نام اپنی 88 ایکڑ زمین میں سے 10 ایکڑ زمین الاٹ کردی۔اس کے بعد ا س لڑکی نے اپنی اوراپنے لڑکے کی رضا مندی سے باپ سے ملنے والی زمین اپنے پوتے کے نام منتقل کردی۔ اب لڑکی کا بھتیجا مطالبہ کرتا ہے کہ وہ زمین واپس لی جائے۔ اور جس کے نام زمین باہمی رضامندی سے الاٹ کی گئی تھی وہ و ا پس نہیں کرتا۔قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کا کیاحل ہے؟ جواب۔جو زمین لڑکی کو اپنے والد کی طرف سے ملی ہے وہ اس میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرسکتی ہے۔ کیونکہ وہ اب اس کی ملکیت ہے۔اگراس نے اپنے قریبی وارث بیٹے کے موجودگی میں اس کی رضا مندی سے اپنے پوتے کے نام منتقل کردی ہے تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ یہ ہبہ کی ایک صورت ہے۔ اب بھائی کے لڑکے یعنی بھتیجے کو اس پر اعتراض کا کوئی حق نہیں ہے۔جب ہبہ برضا ورغبت بلا جبر واکراہ ہوا تو اسے واپس نہیں لیا جاسکتا۔ حدیث میں ہے:'' کہ جو ہبہ دے کرواپسی کا مطالبہ کرتا ہے وہ کتے کی طرح جو قے کرنے کے بعد اسے چاٹتا ہے۔''(سنن ابی داؤد :البیوع 3540) لہذا اس کا حل یہی ہے کہ پوتے کے نام الاٹ شدہ زمین واپس نہ لی جائے اورکسی دوسرے کو اس عطیہ پر کوئی اعتراض نہیں ہوناچاہیے کیونکہ یہ اچھے اور خوشگوار ماحول میں سر انجام پایا ہے۔(واللہ اعلم بالصواب) سوال۔فیصل آباد سے محمد رمضان لکھتے ہیں کہ ایک عورت فوت ہوئی اس نے اپنی زندگی میں تمام جائیداد اپنی بیٹی عزیزہ کودے دی تھی ،جبکہ اس کی بیٹی کے علاوہ اس کے پدری بہن بھائی اور حقیقی بھائی کی اولاد بھی موجود تھی ،کیاشریعت کی رو سے ایسا کیا جاسکتا ہے؟ جواب۔واضح رہے کہ ہرانسان جائز طور پر اپنی جائیداد میں تصرف کرنے کا حق دار ہے۔ صورت مسئولہ میں اگر والدہ نے اپنی صحت و سلامتی کی حالت میں اپنی جائیداد دی تھی تو یہ ہبہ کی صورت ہے۔اور ایسا کرنے کااسے شرعا ً حق ہے کہ اس نے دیگر ورثاء کو محروم کرنے کےلئے یہ اقدام کیا ہے۔ تو وہ اس جرم میں اللہ کے ہاں جواب دہ ہے۔ اگر لڑکی اپنی والدہ کی آخرت میں رہائی چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ جن ورثاء کو محروم کیاگیا ہے انھیں ان کا حق واپس کردے۔ اس صورت میں لڑکی کا نصف او ر باقی جائیداد کے پدری بہن بھائی وارث ہیں۔ ان کی موجودگی میں حقیقی بھائی کی اولاد محروم ہوگی۔معاملہ حقوق العباد کا ہے، اس لئے بیٹی کوچاہیے کہ وہ اپنے حق پر اکتفا کرے۔دوسروں کے حق پر قبضہ جمائے رکھنا زیادتی ہے۔جس کی شریعت نے اجازت نہیں دی ہے۔ سوال۔سیالکوٹ سے محمداکرم سوال کرتے ہیں کہ ہماری ایک عزیزہ فوت ہوچکی ہے۔اس کے ورثاء میں سے خاوند ،تین بیٹیاں اور اس کے چچا کی نرینہ اولاد موجود ہے، اس کی جائیداد کیسے تقسیم ہوگی۔ جواب۔قرآنی ضابطہ وراثت کے مطابق خاوند کو 4/1 کیونکہ مرحومہ کی اولاد موجود ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' اگربیویوں کی اولاد ہو تو تمھیں ان کے ترکہ سے چوتھا حصہ ملے گا۔''(4/النساء :12) |