Maktaba Wahhabi

286 - 495
اور کفن ودفن کے بعد اس کے شرعی ورثاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حقیقت حال سے آپ کو آگاہ کیا۔تو آپ نے مرنے والے کو سخت بُرا بھلاکہا ،پھر ا س کی وصیت کوکالعدم کرتے ہوئے ان چھ غلاموں کے متعلق قرعہ اندازی کی جنہیں بذریعہ وصیت آزاد کردیاتھا۔ 6 کا 3/1 یعنی دو غلام آزاد کردیئے اور باقی چار ورثاء کے حوالے کرکے ان کے نقصان کی تلافی کردی۔(صحیح مسلم :الایمان 1668) دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے متعلق فرمایا:'' کہ اگر ہمیں اس کی حرکت کا پہلے علم ہوجاتا تو ہم اس کی نماز جنازہ ہی نہ پڑھتے۔''(مسند امام احمد :ج4 ص443) بلکہ ایک روایت میں ہے :'' کہ ہم اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کرتے۔''(ابو داؤد :العتق 3958) ان احادیث کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ باپ نے اگرزندگی میں حقوق العباد کے سلسلہ میں کوئی غلط اقدام کیا تھاتو مرنے کے بعد کالعدم کیا جاسکتاہے اور اس میں مناسب ترمیم کرکے کتاب وسنت کے مطابق کرناضروری ہے۔ مرحوم کے ساتھ ہمدردی کابھی یہی تقاضا ہےکہ اس کے غلط اقدام کو برقراررکھ کر اس کے بوجھ کو وزنی نہ بنائیں بلکہ اس کی اصلاح کرکے اس کی عاقبت سنوارنے کی فکر کی جائے۔ ( اولاد کی دو حیثیتیں ہیں۔ایک یہ ہے کہ وہ باپ کے ساتھ ہی کاروبار میں شریک ہوتی اور اس کے ساتھ ہی ایام زندگی گزارتی ہے اس صورت میں باپ کے پاس رہنے والی اولاد کی کمائی باپ کی ہی شمار ہوتی ہے کیونکہ حدیث میں ہے:'' کہ تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کے لئے ہے۔''(سنن نسائی) ایسے حالات میں کسی بیٹے کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ چالو کاروبار سے کچھ رقم قبضہ میں کرکے اپنی الگ جائیداد بنالے اگر ایسا کیاگیا ہے تو ایسی جائیداد کو باپ کی جائیداد سمجھتے ہوئے اس کے ترکے میں شمار کرنا ہو گا۔ہاں اگر اولاد کا حق ملکیت تسلیم کرلیاجائے تو اولاد میں سے کسی کو الگ جائیداد بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔یا کوئی ملازمت پیشہ بیٹا اپنے باپ سے کہہ دے کہ میری اس رقم سے آ پ نے میرے لئے کوئی پلاٹ یا مکان خریدناہے۔ایسے حالات میں اس کی خریدی ہوئی جائیداد کو بیٹے کی جائیداد سمجھا جائے گا۔اس کے باپ کے ترکہ میں شامل نہ کیا جائے گا۔ اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اگرکسی بیٹے نے قرض وغیرہ لے کر پراپرٹی خریدی ہے یا مکان بنایا ہے تو مکان یا پلاٹ کو باپ کے ترکے میں شامل کرتے وقت اس قرضہ کو مشترکہ جائیداد سے منہا کرنا ہوگا۔اولاد کی دوسری حیثیت یہ ہے کہ کوئی بیٹا شادی شدہ ہے۔ باپ نے باضابطہ طور پر اسے الگ کردیا ہے۔ اب وہ خود محنت کرتا ہے اور اپنے گھر کا نظام بھی خود ہی چلاتاہے۔ باپ کے ذمے اس کا کوئی بوجھ نہیں ہے۔ ایسی صور ت میں اگر وہ بیٹا کوئی مکان یا پلاٹ یا جائیداد بناتا ہے تو اسے باپ کے ترکہ میں شمار نہیں کیا جائے گا کیونکہ اس کا الگ حق ملکیت تسلیم کرلیا گیاہے۔ایسے حالات میں باپ اس کے لین دین کا بھی ذمہ دار نہیں ہے۔ آخر میں ہم اس بات کی وضاحت کرنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ حقوق العباد کا معاملہ بہت ہی نازک ہے۔قیامت کے دن اس کی معافی نہیں ہوگی۔اپنی نیکیاں دے کر دوسروں کی بُرایئاں اپنے کھاتے میں ڈال کر اس کی تلافی کی جائے گی۔ارشاد باری
Flag Counter