Maktaba Wahhabi

285 - 495
1۔یہ تصرف کسی ناجائز اور حرام کام کے لئے نہ ہو۔ 2۔جائز تصرف کرتے وقت کسی شرعی وارث کو محروم کرنا مقصود نہ ہو۔ 3۔ اگر یہ تصرف بطور ہبہ ہے تو نرینہ اور مادینہ اولاد کے ساتھ مساویانہ سلوک پر مبنی ہو۔ 4۔اگر یہ تصرف بطور وصیت عمل میں آئے تو کسی صورت میں 3/1 سے زیادہ نہ ہو اور نہ ہی کسی شرعی وارث کے لئے وصیت کی گئی ہو۔صورت مسئولہ میں باپ کو چاہے تھا کہ جائیداد دیتے وقت تمام اولاد بیٹوں اور بیٹیوں کوبرابر برابر جائیداد دیتا جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کو اس کے والد نے ایک غلام بطور عطیہ دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس پر گواہ بناناچاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛'' کہ کیاتو نے دوسرے بیٹوں کو بھی اس قدرعطیات دیئے ہیں۔''اس نے عرض کیا نہیں!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''اس عطیہ سے رجوع کرلو اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اولاد میں عدل وانصاف کیا کرو۔''(صحیح بخاری :کتاب الھبہ، 2586 ) ایک روایت میں ہے'' کہ اگر میں عطیہ کے سلسلہ میں برتری دینا چاہتا تو عورتوں کو برتری دیتا۔''(بیہقی :ج6 :ص177) اس لئے ان احادیث کے پیش نظر باپ کا یہ اقدام غلط ہےکہ وہ کسی ایک بیٹے کے نام جائیداد لگوادے اور دوسروں کو اس سے محروم کردے۔ ( انسان کو اللہ تعالیٰ نے یہ حق نہیں دیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ قانون وراثت کو پامال کرتے ہوئے کسی نافرمان بیٹے کو اپنی جائیداد سے محروم کردے، اخبارات میں''عاق نامہ'' کے اشتہارات اللہ تعالیٰ کے ضابطہ وراثت کے خلاف کھلی بغاوت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' مردوں کے لئے اس مال میں حصہ ہے جو والدین اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لئے اس مال میں حصہ ہے جو والدین اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو،خواہ وہ مال تھوڑا ہو یازیادہ لیکن اس میں یہ حصہ اللہ کی طرف سے مقرر ہے۔''(4/النساء :7) اس آیت کے پیش نظر کسی وارث کو بلاوجہ شرعی وراثت سے محروم نہیں کیاجاسکتا ۔احادیث میں بھی ا س کی وضاحت ملتی ہے۔ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:'' کہ جو کسی کی وراثت ختم کرتا ہے، جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کی ہے اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی وراثت ختم کردیں گے۔''(شعب الایمان بیہقی :ج14 ص115) اگر بیٹا نافرمان ہے تو اس نافرمانی کی سزا قیامت کے دن اللہ کے ہاں ضرور پائے گا لیکن والد کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اسے جائیداد سے محروم کردے۔ ایسا کرنے سے انسان کی عاقبت کے خراب ہونےکا اندیشہ ہے۔ ( اگر باپ نے اپنی زندگی میں کوئی غلط فیصلہ کیا ہےتو اسے مرنے کے بعد توڑا جاسکتاہے۔ بلکہ اسے کالعدم کرکے اس کی اصلاح کرنا ضروری ہے۔ یہ کوئی پختہ لکیر نہیں جسے مٹانا کبیرہ گناہ ہو، ارشاد باری تعالیٰ ہے:''ہاں جو شخص وصیت کرنے والے کی طرف سے جانب داری یا حق تلفی کااندیشہ رکھتاہو اگر وہ آپس میں ان کی اصلاح کردے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔''(2/البقرہ:182) خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے غلط فیصلوں کو ان کے مرنے کے بعد اصلاح فرمائی ہے۔چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ کی کل جائیداد چھ غلام تھے۔ اس نے وصیت کے ذریعے ان سب کو آذاد کردیا ،ا س کے مرنے
Flag Counter