Maktaba Wahhabi

284 - 495
لڑکیاں موجود ہیں۔اس نے اپنی زندگی میں اپنے ایک بیٹے کے نام کچھ جائیداد لگوادی جبکہ کچھ بیٹے اس کی زندگی میں برسر روزگار تھے، انہیں کچھ نہیں دیا، باضابطہ طور پر انہیں الگ نہیں کیاگیا تھا۔ برسرروزگار بیٹوں نے کچھ جائیداد ذاتی طور پربنائی ہے ان حالات کے پیش نظر چند ایک سوالات کے جواب مطلوب ہیں۔ ( مرحوم کی دونوں بیویوں اور اولاد کے اس کے ترکہ سے کیا حصص ہوں گے؟ ( کیا باپ کو اپنی زندگی میں کسی بیٹے کو کچھ دینے کا اختیار ہے اگر ہے تو اس کا ضابطہ کیا ہے؟ ( کیا باپ اپنے کسی نافرمان بیٹے کو اپنی جائیداد سے عاق کرسکتا ہے؟ ( کیا باپ کے فیصلے کو اس کے مرنے کے بعد کالعدم کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ ( اگر باپ کی زندگی میں اس کے بچے کاروبار کرتے ہیں تو ان کی کمائی سے حاصل شدہ جائیداد کی کیاحیثیت ہوگی؟ کیا اسے باپ کے ترکے میں شمار کیا جائے گا یا اسے اس کے ترکہ سے الگ رکھا جائے گا۔کتاب وسنت کی روشنی میں ان کا جواب مطلوب ہے۔ جواب۔مندرجہ بالا سوالات کے جوابات بالترتیب حسب ذیل ہیں۔ ( دونوں بیویوں کو اس کی منقولہ وغیر منقولہ جائیداد سے آٹھواں حصہ ملے گا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:''اگر اولاد ہو تو بیویوں کے لئے اس کے ترکہ سے 8/1 ہے۔''(4/النساء :12) بیویوں کو حصہ دے کر جو باقی بچے اسے اولاد میں اس طرح تقسیم کردیا جائے کہ ایک لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ ملے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' اللہ تعالیٰ اولاد کے متعلق حکم دیتا ہے کہ مرد کاحصہ دو عورتوں کے برابر ہوگا۔''(4/النساء :11) سہولت کے پیش نظر مرحوم کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کے 152 حصے کرلئے جائیں۔ان میں سے152 کا 8/1 یعنی 19 حصے دونوں بیویوں میں تقسیم کردیئے جائیں اور باقی 133حصے اس طرح تقسیم ہوں گے کہ 14'14 حصے فی لڑکا اور 7'7 حصے فی لڑکی کو دیے جائیں ،یعنی ایک لڑکے کو ایک لڑکی کے مقابلے میں دو گنا حصہ ملے۔ دونوں بیویوں حصے :19 چھ لڑکوں کے حصے 6x14: 84 سات لڑکیوں کے حصے 7x7: 49 میزان:152 کل جائیداد ( اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں خود مختار بنا کر بھیجا ہے۔ جس کامطلب یہ ہے کہ وہ شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے اللہ کی نعمتوں کو جس طرح چاہے استعمال کرسکتا ہے۔مال بھی اللہ کی طرف سے ایک نعمت ہے۔اس میں بھی تصرف کرنے کا اسے پورا پورا حق ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے'' کہ ہرمالک اپنے مال میں تصرف کرنے کازیادہ حق رکھتا ہے۔ وہ اس حق کو جیسے چاہے استعمال کرسکتا ہے۔''(بیہقی :ج6 ص 178) اس تصرف کا ضابطہ یہ ہے کہ:
Flag Counter