پہلی تقسیم: /8 بیوہ(1)لڑکا (2) لڑکا(2) لڑکا(2) لڑکی (1) 8= دوسری تقسیم: -/28 خاوند (7) لڑکا(6) لڑکا(6) لڑکا(6) لڑکی(3) =28 هذا ما عندي واللّٰه اعلم بالصواب سوال۔لاہور سے چوہدری محمد اقبال خریداری نمبر 3094 لکھتے ہیں کہ ہمارے والد محترم اکتوبر 1993ء میں وفات پاچکے تھے۔اور ان کے چار بچے یعنی دو بیٹے اور دو بیٹیاں بقید حیات ہیں۔ جبکہ ایک بیٹی ان کی وفات سے پہلے 1973ء میں فوت ہوچکی تھی۔ان کی اولاد میں سے دو بیٹے اور دو بیٹیاں شادی شدہ موجود ہیں۔ کیا مرحوم کے ترکہ سے فوت شدہ بہن یا اس کی موجود اولاد کو کچھ حصہ ملے گا یا نہیں؟قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔ جواب۔وراثت کاایک ضابطہ ہے کہ قریبی رشتہ داروں کی موجودگی میں دور والا رشتہ دار محروم ہوتاہے۔مثلاً بیتے کی موجودگی میں پوتا یا بیٹی کی موجودگی میں نواسہ یا نواسی محروم ہوگی۔ صورت مسئولہ میں مرحوم کے دو بیتے اور دو بیٹیاں ہی وارث ہوں گی۔ان کی موجودگی میں والد کی وفات سے پہلے فوت ہونے والی بیٹی یا اس کی موجودہ اولاد وارث نہیں ہوگی۔ ہاں مرحوم وصیت کے ذریعے اپنے نواسے یا نواسیوں کودے سکتا تھا۔اور وہ بھی کل جائیداد سے 3/1 تک جائز ہے۔اس کے علاوہ کسی صورت میں مرحوم کی جائیدادسے انھیں حصہ نہیں مل سکتا ۔مرحوم کی اولاد اگر چاہے تو انہیں کچھ دے سکتی ہے، یہ ان کی اپنی صوابدید پر موقوف ہے۔واضح رہے کہ موجودہ پسماندگان اس طرح جا ئیداد تقسیم کریں کہ لڑکے کو لڑکی سے دو گنا حصہ ملے۔ سہولت کے پیش نظر جائیداد کے کل چھ حصے کرلیے جائیں۔دو دو حصے فی لڑکا اور ایک ایک فی لڑکی تقسیم کردیاجائے۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیاہے۔''پوتے کو وراثت اس وقت ملتی ہے جب بیٹا موجود نہ ہو۔''پھرحضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے کہ پوتا بیٹے کی موجودگی میں وار ث نہیں ہوتا۔(صحیح البخاری :کتاب الفرائض) اسی طرح بیٹوں اور بیٹیوں کی موجودگی میں کسی بھی بیٹی کی اولاد محروم ہوتی ہے۔خواہ وہ بیٹی زندہ ہو یامرحوم سے پہلے فوت ہوچکی ہو، لہذا نواسیاں نواسے اپنے نانا کی جائیداد کے کسی صورت میں حقدار نہیں ہیں۔(واللہ اعلم) سوال۔چیچہ وطنی سے قاری محمد اکرم ربانی دریافت کرتے ہیں کہ ایک آدمی فوت ہوا ،پسماندگان میں سے بیوہ، دو لڑکے اور تین لڑکیاں موجود ہیں۔مرحوم کی جائیداد کیسے تقسیم ہوگی۔ جواب۔ کفن ودفن اور قرضہ ووصیت کی رقم منہا کرکے جو باقی بچے خواہ جائیداد منقولہ یا غیر منقولہ ہو ،مندرجہ ذیل طریقہ کے مطابق تقسیم ہوگی۔ ''بیوہ کو آٹھواں حصہ دیا جائے گا کیونکہ مرحوم کی اولاد موجود ہے۔اور باقی سات حصے بہن بھائی بایں طور پر تقسیم کریں کہ بھائی کو بہن سے دو گنا ملے، صورت مسئولہ یوں ہوگی کہ کل جائیداد کے آٹھ حصے کر لیے جائیں ایک حصہ بیوہ کو دے دیاجائے اور باقی سات حصوں میں سے دو ،دو دو نوں بیٹوں کو اور ایک ایک تینوں بیٹیوں کو دے دیا جائے۔'' سوال۔میاں چنوں سے عبدالمنان لکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں ایک آدمی فوت ہوا پسماندگان میں دو بیوہ، چھ لڑکے اورسات |