Maktaba Wahhabi

282 - 495
بھائی بھی موجود ہے۔ اس رقم کے متعلق شریعت کاکیا حکم ہے؟ جواب۔واضح رہے کہ مرنے کے بعد انسان جوکچھ اپنے پیچھے چھوڑتا ہے اس کے حقدار شرعی ورثاء ہوتے ہیں، کسی دوسرے کو اس میں تصرف کرنے کاحق نہیں ہے اگرشرعی ورثاء برضا ورغبت میت کی طرف سے صدقہ وخیرات کرنے پر آمادہ ہوں تو اسے خیراتی کاموں پر خرچ کیاجاسکتا ہے۔ان کی مرضی کے بغیر میت کی متروکہ جائیداد کو کسی اور مقام پر خرچ نہیں کیا جاسکتا ۔ صورت مسئولہ میں جو رقم داماد کے پاس پڑی ہے اس کے آٹھ حصے کرلیے جائیں ،دو حصے فی لڑکا اور ایک حصہ فی لڑکی کے حساب سے اسے تقسیم کردیا جائے۔داماد کو چاہیے کہ جن ورثاء کو اس رقم کا علم نہیں ہے انہیں اس کی اطلاع دے بلکہ ان کا حق ان کے حوالہ کردے اگر وہ اپنی مرضی سے صدقہ وخیرات کرنا چاہیں تو ایسا کیا جاسکتا ہے۔لیکن ان کی مرضی کے بغیر تمام رقم صدقہ کرنا درست نہیں ہے، صرف ایک لڑکے اور لڑکی کاحصہ صدقہ کیا جائے جو اس کے صدقہ کرنے پر راضی ہیں۔باقی رقم ورثاء کو واپس کردی جائے۔سوال کی دوسری صورت کہ لڑکے کے پاس بھی با پ کی رقم موجود ہے۔اس کا پدری بھائی بھی زندہ ہے، اس میں پدری بھائی بھی شریک ہے ،لہذا باپ کی رقم کے دس حصے کر لئے جائیں دو دو حصے تینوں لڑکوں کواور ایک ایک حصہ لڑکی کو دے دیاجائے، جس لڑکے کے پاس باپ کی رقم موجود ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنا حصہ رکھ کرباقی رقم دوسرے بہن بھائیوں کے حوالے کردے ۔ساری رقم پر قبضہ جمائے رکھنا حرام اور ناجائز ہے، حقوق العباد کے معاملہ میں انسان کوخاص احتیاط کرنا چاہیے۔ سوال۔ بدو ملہی سے بشیر احمد سوال کرتے ہیں کہ ایک آدمی کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے میاں بیوی خود بھی حیات ہیں، شرعی اعتبار سے جائیداد کی تقسیم کیسے ہوگی؟ جواب۔سوال میں اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ کس جائیداد کو تقسیم کرنا ہے۔ پھر زندگی میں یا مرنے کے بعد جائیداد تقسیم کرنے کا مسئلہ درپیش ہے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ وراثت کے سوالات خوب واضح کرکے لکھا کریں۔ زندگی میں انسان اپنی جائیداد کے متعلق خود مختار ہے۔ اپنی ضروریات کے لئے جتنی جائیداد چاہے صرف کردے اس سے کوئی باز پرس نہ ہوگی ،البتہ اپنی اولاد میں تقسیم کرنے کے لئے مساوات کو پیش نظر رکھنا ہوگا ،اس مساوات میں مرد وزن کی بھی تفریق نہیں ہے یعنی لڑکوں اور لڑکیوں میں برابر ،برابر تقسیم ہوگی۔ صورت مسئولہ میں بیوی کو صوابدید حصہ دے کر باقی جائیداد کو چار حصوں میں تقسیم کردیا جائے تین لڑکوں اور ایک لڑکی کو ایک حصہ دے دیا جائے اگر بعد از موت تقسیم جائیداد کا مسئلہ ہے تو اس کی دو صورتیں ہیں۔ 1۔باپ کی وفات کے وقت اگر مذکورہ اولاد زندہ ہوتو ان میں جائیداد کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ بیوی کا آٹھواں حصہ نکالنے کے بعد بقیہ سات حصے اولادمیں یوں تقسیم کردیئے جائیں کہ لڑکے کو دو دو حصے اور لڑکی کو ایک حصہ دیا جائے۔یعنی کل جائیداد کو آٹھ حصوں میں تقسیم کرلیا جائے، ایک حصہ بیوہ کے لئے، دو دو حصے فی لڑکا ،ایک حصہ لڑکی کو دے دیاجائے۔ 2۔ماں کی وفات کے وقت اگر مذکورہ اولاد زندہ ہوتو جائیداد تقسیم اس طرح ہوگی ،خاوند کا چوتھا حصہ نکالنے کے بعد باقی تین حصے اولاد میں اس طرح تقسیم کردیئے جائیں کہ لڑکے کو لڑکی کے حصے سے دوگنا ملے۔ صورت مسئولہ میں سہولت کے پیش نظر جائیداد کے کل 28 حصے کرلیے جائیں۔ان کا 4/1 یعنی سات حصے خاوند کو پھر چھ چھ ہرلڑکے کو اور تین حصے لڑکی کو دیئے جائیں۔
Flag Counter