Maktaba Wahhabi

271 - 495
شرعاً اور قانوناً ایک سنگین جرم ہے۔ صورت مسئولہ میں گندم چاول اور چنا وغیرہ کو سٹاک کیا جاسکتاہے بشرطیکہ مصنوعی قلت پیدا کرنے کی نیت نہ ہو اوراگر بازار میں اشیاء بسہولت دستیاب نہ ہوں تو انہیں دبا کر نہ رکھا جائے بلکہ کھلے بازار فروخت کے لئے لانا چاہیے اگر بازار میں یہ چیزیں عام دستیاب ہیں تو ایسی چیزوں کا ذخیرہ کرنا شرعاً ناجائز نہیں۔ سوال۔ایک انشورنس کمپنی E.F.U کا دعویٰ ہے کہ ہم رقم کو بزنس میں لگاتے ہیں اور منافع یا نقصان سرمایہ لگانے والوں میں تقسیم کردیتے ہیں، ہم بینک یا دوسری سیونگ کمپنیوں کی طرح منافع کی شرح فکس نہیں کرتے، اس کے متعلق واضح کریں کہ ایسی کمپنی میں سرمایہ کاری کرنا شرعاً درست ہے۔(پروفیسر عبدالماجد منڈی بہاول الدین بذریعہ ای میل) جواب۔انشورنس جسے بیمہ کہا جاتا ہےایک جدید کا روباری معاملہ ہےجس کا اسلامی فقہ کے ابتدائی دور میں کوئی وجود نہیں تھا ، یہی وجہ ہے کہ دور حاضر کے جن ماہرین علم نے اس پر بحث کی ہے، ان کی آراء مختلف ہیں ،بعض اس کے جائز ہونے کی طرف رجحان رکھتے ہیں ،جبکہ بعض دور رس اور باریک بین حضرات نے اس کے برعکس اس کی حرمت کا فتویٰ دیا ہے۔ لہذا اس کے متعلق شرعی حکم معلوم کرنے سے پہلے اس معاملے کی اصل حقیقت جاننا انتہائی ضروری ہے، اس میں شک نہیں ہے کہ بیمہ نظریہ کے اعتبار سے باہمی تعاون اور امداد محض پر قائم ہے۔نظریے کی حد تک یہ ایسا امر ہےجس پر شریعت نے بھی ابھارا ہے۔ دین اسلام نے ہمیں باہمی تعاون ،ایک دوسرے کی مدد، ایثار وقربانی دینے کی ترغیب دی ہے۔ جس کی عملی صورت معاملات عطیات اور صدقات وخیرات ہیں۔شریعت اسلامیہ نے جہاں اغراض ومقاصد بیان کئے ہیں وہاں ان ذرائع ووسائل کو بھی بیان کیا ہے جوان مقاصد کے حصول کے لئے اختیار کیے جاتے ہیں۔ بیمہ نظریے اور نظام کے اعتبار سے تو تعاون محض پرقائم تھا لیکن عملی طور پر جوذرائع استعمال کیے گئے ہیں وہ خود اس نظریہ کی نفی کرتے ہیں جیساکہ آیندہ معلوم ہوگا۔ در اصل امداد باہمی پر مبنی یہ نظام جب یہود یانہ ذہنیت کی بھینٹ چڑھا تو اسے پہلے تو کاروباری شکل دے دی گئی، پھر سود، دھوکہ اور جوئے جیسے بدترین عوامل وعناصر کو اس میں شامل کرکے اس پر سے تعاون محض کی چھاپ کو اتار دیا گیا۔یہ بیمہ اشخاص اور کمپنیوں کے درمیان ایک خاص عقد کانام ہے جس میں افراد اور کمپنیوں کے درمیان مندرجہ ذیل امور طے پاتے ہیں۔ 1۔طالب بیمہ ایک معین رقم معینہ مدت تک بالاقساط ادا کرتا ہے ،اس کے عوض بیمہ کمپنیاں اسے خطرات سے تحفظ اورگراں قدر سالانہ منافع پیش کرتی ہیں۔ 2۔یہ کمپنیاں اپنی صوابدید کے مطابق جہاں چاہیں اس رقم کو صرف کریں طالب بیمہ اس سے قطعی طور پر لاتعلق ہوتا ہے۔ یہ رقم جائزو ناجائز کاموں پر صرف کی جاتی ہے۔جیسے عمارات کی تعمیر اور بھاری شرح سود پر آگے بڑی کمپنیوں کو قرض دینا وغیرہ۔ 3۔طالب بیمہ اگر معینہ مدت تک زندہ رہے اور پوری رقم بالاقساط ادا کردے تو وہ کمپنی سے ادا کردہ رقم سے زائد وصول کرنے کا حقدار ہوجاتا ہے، اگر اس مدت سے پہلے مرجائے تو اس کی طرف سے نامزد شخص زر بیمہ کامستحق ہوتاہے۔ 4۔اگرطالب بیمہ معینہ مدت سے پہلے اپنی اقساط بند کرکے معاہدہ بیمہ کو ختم کرنا چاہے تو جمع شدہ رقم کمپنی ضبط کرلیتی ہے۔
Flag Counter