بیمہ کی تعریف مختصر طور پر یوں کی جاسکتی ہے کہ یہ ایک ایسا معاہدہ ہے جس کی رو سے تحفظ دھندہ یعنی بیمہ کمپنی پر یہ لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اس شخص کو جس نے بیمہ پالیسی خریدی ہے حادثہ یا نقصان پہنچنے کی صورت میں ایک مخصوص رقم ادا کرے۔اس تعریف سے بیمہ کے تین عناصر کا پتہ چلتا ہے وہ یہ ہیں: 1۔بیمہ کی قسط ۔ 2 ۔خطرہ۔ 3۔بیمہ کی رقم۔ خطرہ سے مراد وہ امکانی حادثہ ہے جو مستقبل میں کسی وقت بھی پیش آسکتا ہے ۔یہ خطرہ اورحادثہ ہی اس کاروبار بیمہ میں بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ اور باقی دوسرے عناصر کے لئے بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اس کاروبار کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ معاہدہ کی رو سے فریقین ذمہ دار بن جاتے ہیں۔اس میں ایک فریق خطرات سے تحفظ فراہم کرنے والا ہوتا ہے اور دوسرا وہ جسے تحفظ فراہم کیا جاتا ہے جسے طالب بیمہ کہتےہیں۔اس کی ذمہ داری یہ ہوتی ہےکہ وہ اقساط بیمہ کی ادائیگی کا بروقت بندوبست کرے ۔یہ ذمہ داری معاہدہ کی تکمیل کے وقت ہی شروع ہوجاتی ہے جبکہ اس کے مقابلہ میں بیمہ کمپنی کی ذمہ داری غیر یقینی اور احتمالی ہوتی ہے کیوں کہ اس کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ حادثہ پیش آنے کی صورت میں بیمہ کی رقم ادا کرے ،اس ذمہ داری کے وجود کا تصور اس کے بغیر ممکن ہی نہیں کہ کوئی حادثہ پیش آئے ا س وجہ سے دھوکہ اور احتمال اس کاروبار کا بنیادی رکن اور لازمی عنصر ہے کیوں کہ بیمہ کا کاروبار اس کے بغیر ناممکن ہے اور یہ دھوکہ اپنی نوعیت اور قسم کے لحاظ سے انتہائی سنگین ہے کیوں کہ یہ حصول معاوضہ کے سلسلہ میں اس کی مقدار اوراس کی مدت کے بارے میں پایاجاتا ہے۔ جبکہ شریعت نے کاروباری معاملات میں دھوکہ کی معمولی قسم کو بھی حرام ٹھہرایا ہے۔ دھوکہ عربی زبان میں غرر کو کہتے ہیں جس کی تعریف یہ ہے کہ''غیر طبعی، غیر معمولی اور غیر یقینی صورت حال جس کے پیش نظر کسی معاملہ یالین دین کے ضروری پہلو متعین نہ کئے جاسکیں اور فریقین آخر وقت تک اس معاملہ میں غیر یقینی صورتحال کا شکار رہیں کہ ان کے معاملہ کی اصل صورت بالآخر کیاہوگی۔'' غرر کی متعدد تعریفات سے اس کے جو اہم عناصر سامنے آئے ہیں وہ شک وشبہ، غیر یقینی کیفیت اور معاملہ کے بنیادی اجزاء کا غیر معلوم اور غیر معین ہونا ہے۔جس معاملہ میں یہ عناصر پائیں جائیں وہ معاملہ مبنی بر دھوکا سمجھا جائے گا اور شریعت میں ایسا معاملہ ناجائز اور حرام ہے۔ہم اس مقام پر یہ وضاحت کردینا ضروری خیال کرتے ہیں کہ بیمہ کے متعلق محل اختلاف اس کا نظریہ اور نظام ہرگز نہیں ہے، بلکہ محل اختلاف وہ طریق کار اور ذریعہ ہے جو اس کے نظریہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اختیار کیا گیا ہے۔ اس کے طریق کار کے پیش نظر یہ کاروبار غیر یقینی اورسنگین دھوکے والا معاملہ ہے، ا س کے غیر یقینی ہونے سے یہ مراد ہے کہ اس میں فریقین میں سے ہر ایک کو معاہدہ کی تکمیل کے وقت معاوضہ کی اس مقدار کا علم نہیں ہوتا جو وہ ادا کرے گا یا وصول کرے گا۔اس لئے کہ وہ تو اس خطرہ کے وقوع یا عدم وقوع پر موقوف ہوتا ہے جس سے تحفظ دیا گیا ہے۔اور یہ بات اللہ کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا کہ حادثہ پیش آئے گا یا نہیں؟اگر آئے گا تو کب آئے گا؟بعض اوقات طالب بیمہ ایک ہی قسط ادا کرنے کے بعد حادثہ سے دو چار ہوجاتا ہے اور رقم بیمہ کا حقدار بن جاتا ہے۔جبکہ بعض اوقات پوری اقساط ادا کرنے کے باوجود حادثہ پیش نہیں آتا، اس طرح تحفظ فراہم کرنے والی بیمہ کمپنی کو معاہد ہ کے وقت علم نہیں ہوتا کہ وہ کیا وصول کرے گی اور کیا ادا کرے گی کیوں کہ بعض اوقات ایک ہی قسط وصول کرنے کے بعد حادثہ پیش آجاتا ہے اور اسے بیمہ کی رقم طالب بیمہ کو ادا کرنا پڑتی ہے۔ اور بعض اوقات پوری اقساط وصول کرلیتی ہے لیکن حادثہ |