2۔انعام حاصل کرنے والے سے کچھ وصول نہیں کیا جاتا ،جبکہ اس انعامی اسکیم میں شمولیت کے لئے ایک لاکھ روپیہ ایڈوانس برائے ادویات جمع کراناضروری ہے۔ 3۔انعام میں کچھ وجو ہ ترجیح ہوتی ہیں، جبکہ مذکورہ اسکیم کی بنیاد محض اتفاق ہے۔ اس بنا پر اس قسم کی شمولیت میں گریز کیا جائے۔(واللہ اعلم بالصواب) سوال۔پھول نگرسے خورشیدہ بی بی سوال کرتی ہیں کہ میرے دو بیٹے ہیں۔او ر مجھے بذریعہ قرعہ اندازی حکومت کی طرف سے ایک پلاٹ الاٹ ہوا۔ جس کی قیمت اور اس کی تعمیر پر اٹھنے والے جملہ اخراجات میرے بڑے بیٹے اور چھوٹی بیٹی نے برداشت کیے ،اب میرا چھوٹا بھائی فوت ہوچکا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ مذکورہ پلاٹ جس کی پرچی میرے نام ہے۔ اپنے مرحوم بھائی کی اولاد کو دے دوں۔میرا بڑا بیٹا بھی ان کے حق میں دستبردار ہونے کو تیار ہے۔ کیا میں شرعی طور پر وہ مکان اپنے یتیم بھتیجوں کو دے سکتی ہوں؟ جواب۔واضح رہے کہ صورت مسئولہ میں پلاٹ میں تعمیر شدہ مکان کامالک وہی ہے جس کو حکومت نے الاٹ کیا ہے اگرکسی دوسرے نے اس کی قیمت اداکی ہے اور اس کی تعمیر پر اٹھنے والے اخراجات برداشت کیے ہیں تو ایسا کرنے سے کوئی دوسرا اس کا مالک نہیں بن سکے گا۔ اسے حسن سلوک ایثار اور ہمدردی کانام تو دیاجاسکتا ہے لیکن انتقال ملکیت کی وجہ نہیں بن سکتا۔ اس کی وضاحت کے بعد یہ بھی معلوم ہوناچاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں خود مختار بناکر بھیجا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے اللہ کی نعمتوں کو جس طرح چاہے استعمال کرسکتا ہے۔ مال وغیرہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے اس میں بھی تصرف کرنے کا اسے پورا پورا حق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:''ہر مالک اپنے مال میں تصرف کرنے کا زیادہ حق رکھتا ہے۔ وہ اس حق کو جیسے چاہے استعمال کرسکتا ہے۔''(بیہقی :/178) لیکن اس تصرف کے لئے مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے: ( یہ تصرف کسی ناجائز اور حرام کام کے لئے نہ ہو۔ ( جائز تصرف کرتے وقت کسی شرعی وارث کو محروم کرنا مقصود نہ ہو۔ ( اگر یہ تصرف بطور ہبہ اولاد کے لئے ہے تو نرینہ اور مادینہ اولاد کے ساتھ مساویانہ سلوک پر مبنی ہو۔ ( اگر یہ تصرف بطو روصیت عمل میں آئے تو کل جائیدادکے 3/1 سے یہ تصرف زائد نہیں ہونا چاہیے۔اور نہ ہی کسی شرعی وارث کے لئے وصیت کی گئی ہو۔ ان مذکورہ شرائط کو مد نظر رکھتے ہوئے سائلہ اپنی زندگی میں بقائمی ہوش وحواس مذکورہ مکان اپنے مرحوم بھائی کی اولاد کو دسے سکتی ہے تاہم آیندہ پیدا ہونے والی کشیدگی کے پیش نظر اپنے چھوٹے بیٹے کو بھی اعتماد میں لے لیا جائے تاکہ باہمی اختلاف وناچاقی کے تمام راستے مسدود ہوجائیں اور یہ نیکی کا کام بخیر وخوبی سرانجام پاسکے۔ سوال۔ملتان سے عبد الکریم آصف سوال کرتے ہیں کہ ہمارے پڑوس میں ایک مدرسہ ہے۔ وہاں بکثرت گوشت آتا ہے۔ اہل مدرسہ ضرورت سے زائد گوشت کو بازار سے کم قیمت پر فروخت کردیتے ہیں جب کہ وہ گوشت صدقہ وخیرات کے طور پر مدرسہ میں لایاجاتا ہے، کیا اس طرح ضرورت سے فاضل گوشت کی خرید وفروخت جائز ہے؟ |