3۔دھوکہ: بیمہ کرتے وقت نہ تو طالب بیمہ کو علم ہوتا ہے کہ وہ کتنی اقساط ادا کرے گا۔اور نہ بیمہ کمپنی جانتی ہے کہ وہ کیا وصول کرے گی اور اسے کیاکچھ اداکرنا ہوگا۔لہذا یہ سب''اندھاسودا'' ہےجس میں غرر یعنی دھوکے کاپہلو نمایاں طور پر موجود ہے۔اور اس دھوکہ دہی سے شریعت نے منع فرمایا ہے،مذکورہ تین خرابیوں کے علاوہ بھی بے شمار قباحتیں پائی جاتی ہیں جن کے بیان کرنے کی فتویٰ میں گنجائش نہیں۔سوال میں مولاناثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کے ایک فتوی کا بھی حوالہ دیا گیا ہے، حالانکہ ان کے فتوی میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے موجودہ بیمہ کاری کے جواز کی طرف اشارہ ہوتاہو۔تفصیل کے لئے فتاویٰ ثنائیہ صفحہ 371 ج2 کا مطالعہ کیاجاسکتا ہے، اس میں مولانا محمد داؤد راز رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا شرف الدین رحمۃ اللہ علیہ کے توضیحی اشارات بھی ہیں۔اس بنا پر مولانا امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت سے جواز بیمہ کامسئلہ کشید کرنادرست نہیں ہے۔(واللہ اعلم) سوال۔عارف والاسے محمد اجمل لکھتے ہیں کہ ایک پرائیویٹ کمپنی کی زرعی ادویات فروخت کرنے کے لئے چار یا پانچ سو ڈیلر ہیں۔ اس کمپنی نے زرعی ادویات کی خرید بڑھانے کے لئے ایک انعامی سکیم تیار کی ہے کہ ہر ڈیلر سے ایک لاکھ روپیہ ایڈوانس لے کر انہیں زرعی ادویات مہیا کی جائیں، پھر ہر ڈیلر کو ایک کلر ٹی وی اور اسلام آباد ہوٹل میں ایک دن کا قیام مع طعام پیش کیا جائے گا۔نیز 10 عدد موٹرسائیکل بذریعہ قرعہ اندازی دیئے جائیں گے کیا اس طرح''انعام'' بذریعہ قرعہ اندازی دینا جائز ہے؟ جواب۔واضح رہے کہ اس طرح کی انعامی سکیمیں کسی انسانی ہمدردی کے پیش نظر نہیں ہوتیں بلکہ مختلف کمپنیاں اپنی مصنوعات کو فروغ دینے اور مارکیٹ میں ان کی خریدوفروخت بڑھانے کے لئے ایسا کرتی ہیں۔بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی دوسری کمپنی کو ناکام کرنے کےلئے انعامی سکیموں کااجراء کردیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کارجحان کمپنی کی مصنوعات کی طرف زیادہ ہوجائے ، اس میں منافع کی شرح اس قدرزیادہ ہوتی ہے کہ اس سے انعامات وغیرہ نکال کر ڈھیروں بچت ہوتی ہے۔ صورت مسئولہ میں اگر کمپنی کسی دوسری کمپنی کو ناکام نہیں کرناچاہتی اوراپنے تمام ڈیلروں سے مساویانہ سلوک کرتے ہوئے اور ٹی وی کی بیماری کو اس انعامی سکیم سے نکال کرتے ہوئے برابر مراعات تقسیم کرتی ہے تو کسی حد تک جواز کی گنجائش ہے۔ لیکن قرعہ اندازی کے ذریعے ان کی تقسیم محل نظر ہے کیوں کہ شریعت میں قرعہ اندازی کو وہاں برقرار رکھا گیا ہے جہاں استحقاق میں سب برابر ہوں لیکن تمام کو حق دینے کےلئے فیصلہ نا ممکن یا مشکل ہو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں بذریعہ قرعہ اندازی کسی ایک زوجہ محترمہ کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے ، ظاہر ہے کہ سفر میں اپنے خاوند کے ہمراہ جانے میں تمام ازواج برابر استحقاق رکھتی ہیں، لیکن اس پر عمل ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ بنا بریں قرعہ اندازی سے فیصلہ کیا جاتا ۔صورت مسئولہ میں ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ 10 عدد موٹرسائیکل لینے میں تمام ڈیلر استحقاق نہیں رکھتے۔نیز کمپنی کے لئے اس کے متعلق فیصلہ کرنا نا ممکن یا مشکل نہیں ہے بلکہ وہ اتنی مالیت کی کوئی ایسی چیزیں ا پنے ڈیلروں کودے سکتی ہے جو قرعہ اندازی کے بغیر تمام کو برابر تقسیم ہوسکتی ہوں۔ ہمارے نزدیک توانھیں انعام قراردینا بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ انعام میں مندرجہ ذیل چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ 1۔انعام حسن کارکردگی یااعلیٰ خدمات کا صلہ ہوتا ہے جبکہ اس طرح کی انعامی سکیموں میں کوئی کارکردگی یا خدمات نہیں دیکھی جاتیں۔ |