ہے،حالانکہ یہ کاروبار شرعاً جائز نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ بانڈز کی رقم پر بھی زکوۃ دینا ہوگی یا نہیں؟حالانکہ ا س کی رقم کاروبار میں مصروف ہوچکی ہے اگرچہ غیرشرعی کاروبار ہے۔ جواب۔ بلاشبہ پرائز بانڈز کا کاروبار نہ صرف سود ہے بلکہ اس میں جوا کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔سود اس لحاظ سے ہے کہ حکومت ایک متعین شرح کے حساب سے سود کی رقم کا حساب کرکے اسے انعام کی شکل میں دیتی ہے۔اس طرح یہ بانڈز حکومت کے لئے سودی قرضہ کی ہی حیثیت رکھتے ہیں۔اور بانڈز خرید کررکھنے والا انعامی رقم کو حاصل کرنے کی توقع کی وجہ سے اس گناہ میں برابر کا شریک ہے۔ اور جوا اس لئے ہے کہ بانڈز ہولڈ ر صرف اتفاقی طور پر نمبر نکل آنے سے بغیر کسی فعال سرمایہ کاری کے نفع حاصل کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ جوا میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔اس لئے جو شخص بانڈز خرید کر اپنے پاس رکھے ہوئے ہے اسے چاہیے کہ اس کی حرمت کے پیش نظر انہیں واپس کرکے اپنی رقم لے اور کسی مناسب کاروبار میں لگائے۔صورت مسئولہ میں ان بانڈز کی مالیت پر زکوۃ دینا ہوگی۔بشرطیکہ یہ مالیت نصاب کو پہنچ جائے، پھر اس پر سال گزر جائے اور وہ رقم ضروریات زندگی سے بھی فاضل ہو،کیوں کہ یہ ایک قرض کی صورت ہے۔اگر یہ رقم کسی کو قرض دی ہوتی تو بھی اسے زکوۃ اداکرنا مالک کی ذمہ داری ہے۔لہذا ان بانڈز سے زکوۃ ادا کرنا چاہیے۔البتہ اس بات کا خیال رکھے کہ زکوۃ میں یہ بانڈز وغیرہ نہ دیئے جائیں بلکہ نقدی کی صورت میں ادا کی جائے۔ کیوں کہ بانڈز دینے سے سودی کاروبار کے پھیلنے کا اندیشہ ہے اور مسلمان کے لئے ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ سوال۔وزیرآباد سے محمد داؤد سوال کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں بیمہ کاری کے متعلق کچھ اختلاف ہوگیا ہے۔بعض حضرات کا خیال ہے کہ نظام بیمہ اسلام سےمتصادم نہیں ہے۔ لہذا یہ جائز ہے اوران کے بقول بہت سے علماء بھی ا س کے حق میں فتویٰ دے چکے ہیں۔جن میں مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ بھی شامل ہیں۔کتاب وسنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں؟ جواب۔بلاشبہ بیمہ کی خشت او ل تعاون محض اور امداد باہمی تھی لیکن جب یہ نظام یہودیانہ ذہنیت کی بھینٹ چڑھا تو اسے خالص کاروباری شکل دے دی گئی، پھر سود ،دھوکہ اور جوئے جیسے بدترین عناصر کو اس میں شامل کرکےاس پر سے تعاون محض کی چھاپ کو اتار دیا گیا اور اس میں موجود مفاسد کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ 1۔سود: طالب بیمہ جو رقم اقساط کی صورت میں کمپنی کو ادا کرتا ہےاگرحادثہ کے وقت اس کے مساوی رقم واپس ملے تو یہ ایک جائز صورت ہے۔لیکن اسے ادا کردہ رقم سے زیادہ کہیں رقم ملتی ہے۔یہ زائد رقم سود ہے جس کی حرمت میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ زائد رقم اس کی ادا کردہ رقم کے عوض ملتی ہے۔سود بھی اسی کا نام ہےکہ ایک آدمی کچھ رقم دیتاہے۔پھر ایک خاص مدت کے بعد اس رقم کے عوض کچھ زائد وصول کرتاہے۔جب کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:''کہ تم صرف اپنی ر قم کے حقدار ہو۔'' 2۔جوا : اس کاروبار میں جوا کاعنصر بھی پایا جاتاہے،دوسرے لفظوں میں یہ ایک ایسامعاہدہ ہے جس میں فریقین اس بات کاعہدکرتے ہیں کہ وہ دوسرے کو ایک مقررہ رقم جب متعین حادثہ پیش آئے گا تو ادا کرے گا۔ اس لحاظ سے بیمہ کے جوا ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔کیوں کہ جوآدمی ایک قسط ادا کرنے کے بعد مرجاتاہے تو ا س کےنامزد کردہ وارث کو اس کی ادا کردہ رقم سے کئی گنا زیادہ رقم ملتی ہے۔تھوڑی سی محنت کرنے سے اتفاقی طور پر بہت زیادہ ہتھیا لینے کو میسر کہتے ہیں جوقرآن کریم کی نظر میں ایک شیطانی عمل ہے۔ |