Maktaba Wahhabi

264 - 495
3۔میرا قطعی طور پر T.A کے مطابق خرچہ ہوچکاہے۔ حالانکہ یہ بھی خلاف واقع ہوتاہے،میرا اتنا خرچہ نہیں ہوتا۔اس کے علاوہ T.A کا بل پاس کروانے کےلئے مجھے اصل رقم کا10 فیصدافسران بالا کوبطور رشوت دینا پڑتا ہے۔اب کیا اس طریقہ سےحاصل کیا ہوا پیسہ میرے لئے حلال ہے؟ جواب۔ مالی معاملات کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقہ سے مت کھاؤ۔''(2/البقرہ :188) حدیث میں ہے '' کہ جو انسان جھوٹی قسم اٹھا کر کچھ مال ہتھیا لیتاہے۔قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس پر انتہائی ناراض ہوں گے اور وہ شخص اللہ کی نظر رحمت سے بھی محروم رہے گا۔ بعض روایات میں ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ نے جنت کو حرام کردیا ہے۔''(ابوداؤد ، سنن نسائی) مذکورہ بالا ارشاد ربانی اور فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر ناجائز طور پر مال کمانا اور اس کا استعمال کرناحرام ہے۔اس بنا پرصورت مسئولہ میں مذکورہ T.A لینے کا کوئی جوازنہیں ہے۔اور نہ ہی اس کا یہ حق ہے کہ رشوت دے کر اسے حاصل کیاجائے بلکہ رشوت کے بغیر بھی اگر ملتا ہے تو اس رقم کا لینا جائز نہیں ہے۔چہ جائیکہ رشوت جیسے گھناؤنے جرم کا بھی ارتکاب کیا جائے۔رشوت کے کاروبار کے متعلق فرمان نبوی ہے:''رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں۔''بعض روایات میں ہے کہ ان دونوں کے درمیان جو واسطہ بنتا ہے وہ بھی جرم میں برابر کا شریک ہے۔باعث افسوس تو یہ معاملہ ہےکہ محکمہ کی زیر نگرانی ایسے کام سر انجام پاتے ہیں۔ کیوں کہ افسران بالا کو علم ہوتا ہےکہ اہل کار کا فاصلہ کتنا ہے؟اور وہ کتنا وقت اس پر صرف کرتا ہے ، چونکہ اس خود ساختہ T.A کا دس فیصد ان کی جیب میں آنا ہوتا ہے،اس لئے اہل کار کو جھوٹ بولنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ لہذ ا ایک مسلمان کے شایان شان نہیں ہے کہ وہ اس طرح حرام ذرائع سے مال کمائے اور اپنی عاقبت کو برباد کرے۔(واللہ اعلم) سوال۔رحیم یار خان سے محمد عثمان دریافت کرتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے جاری کردہ انعامی سکیموں (انعامی بانڈز وغیرہ) کی شرعی حقیقت کیا ہے؟بعض علماء اسے جوا کی ایک قسم بتاتے ہیں۔ جواب۔حکومت کی طرف سے جاری کردہ انعامی سکیمیں شرعاً جائز اور حرام ہیں کیوں کہ یہ جوئے کی مختلف اقسام ہیں جسے قرآن نے حرام پلید اور شیطانی عمل قراردیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’بلاشبہ شراب، جوا، بتوں کے نام کی چیزیں اور تیروں کے ذریعے قسمت آزمائی پلید اور شیطانی کام ہیں۔ان سے پرہیز کرو۔‘‘ (5/المائدۃ :90) دور جاہلیت میں جوئے کی متعدد صورتیں تھیں جن میں ایک یہ تھی کہ کعبہ میں رکھے ہوئے چند مخصوص تیروں کے ذریعے مشترکہ مال تقسیم کیاجاتا تھا۔ اس طرح کہ قرعہ اندازی کے ذریعے جو تیر جس کے نام نکل آیا اور اس پرجتنا حصہ لکھا ہوتا وہ اسے مل جاتا، بعض خالی تیر نکلنے کی صورت میں وہ شخص بالکل محروم رہتا ،ایسا کرنے سے کچھ لوگ حصہ پاتے اور کچھ بالکل تہی دست رہتے۔اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ قرآن کی نظر میں اس قسم کے تمام کام حرام ہیں جن میں تقسیم کا دارومدار کسی ایسے امر پررکھاجائے جس کے ذریعے دوسروں کا مال کسی ایک شخص یا چند اشخاص کی جیبوں میں چلاجائے۔دریافت کردہ انعامی سکیموں میں یہ خرابی بدرجہ اتم موجود ہے۔لہذا ان کے حرام اور ناجائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں، امام ابوبکر جصاص حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ایک قول نقل کرتے ہوئے
Flag Counter